نصیر ترابی غزل : کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق کے مارے ہوئے لوگ - نصیر ترابی

غزل
کیا بڑے لوگ ہیں یہ عشق کے مارے ہوئے لوگ
اپنے اِمروز میں فردا کو گزارے ہوئے لوگ

تجھ سے بے رُخ ہوئے جب آئینہ خانے تیرے
کام آئے ہیں یہی دل کے سنوارے ہوئے لوگ

سلسلے جوڑتے رہتے ہیں سخن کے کیا کیا
یہ تری چپ ، ترے لہجے کے پُکارے ہوئے لوگ

آج بھی کل کی طرح تیری طلب رکھتے ہیں
پیچ و خم دیدہ ، کئی ہجر گزارے ہوئے لوگ

مڑ کے اک بار ادھر دیکھ تو اے وقت کی رو
وہی اپنے تھے جو اب شہر کو پیارے ہوئے لوگ

تھم گیا شور مگر پوچھ رہی ہے یہ ہوا
غرق دریا میں کہ دریا کے کنارے ہوئے لوگ

اِس طرف حلقۂ فریاد و فُغاں اور اُدھر
وہی مسند،وہی مسند سے اُتارے ہوئے لوگ

نہ ملی راہ میں ہمسائیگیِ مہر تو کیا
اپنی ہی شعلگیِ جاں میں ستارے ہوئے لوگ

اپنی آغوش میں رکھنا اِنہیں اے صبحِ کمال
اک قبیلے سے ہیں منسوب یہ ہارے ہوئے لوگ

کوہ کَن سا نہ ہوا کوئی سرِ وادیِ عشق
ویسے سر دینے کو تیار تو سارے ہوئے لوگ

کیا کہیں تم سے یہ آشفتہ طبیعت اپنی
جو کسی کے نہ ہوئے تھے وہ تمہارے ہوئے لوگ

اک نصیر اِس صفِ حیرت میں نہیں جان ِ غزل
"شہر میں سب ترے جادو کے ہیں مارے ہوئے لوگ"
نصیرؔ ترابی
 
Top