غزل: ڈھونڈے ڈھونڈے نہ جہاں سایہ ء دیوار ملے

احباب گرامی ، سلام عرض ہے!
اپنی ایک پرانی، لیکن آپ كے لیے نئی، غزل پیش کر رہا ہوں . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی گراں قدر رائے سے نوازیے .

ڈھونڈے ڈھونڈے نہ جہاں سایہ ء دیوار ملے
کیا ہو، اُس شہر میں گر دھوپ کا آزار ملے

موت کا خوف نہیں ہے مجھے یا رب، لیکن
التجا اتنی ہے تجھ سے کہ بس اک بار ملے

بال و پر ہی نہ تھے ان وقت كے ماروں كے پاس
ورنہ اڑنے کو پرندے کئی تیار ملے

اب نہ منزل کی طلب ہے نہ کسی ساتھی کی
آپ اِس موڑ پہ آ کر ہمیں بیکار ملے

یہ سنا تھا کہ ہیں معبود صنم اور خدا
پر یہاں ہَم کو فقط زَر كے پرستار ملے

اُس سے ہَم نفرتِ دنیا کا گلہ کیا کرتے
آئینے میں بھی ہمیں بغض كے آثار ملے

زیست کو کاٹ رہے ہیں جو سزا کی مانند
عابؔد ایسے بھی ہمیں چند گنہگار ملے

نیازمند ،
عرفان عؔابد
 
موت کا خوف نہیں ہے مجھے یا رب، لیکن
التجا اتنی ہے تجھ سے کہ بس اک بار
واہ!!! کیا اچھا کہا ہے عرفان بھائی

اب نہ منزل کی طلب ہے نہ کسی ساتھی کی
آپ اِس موڑ پہ آ کر ہمیں بیکار ملے
بہت خوب.
ماشاء اللہ عمدہ غزل ہے عرفان بھائی، بہت سی داد.
 

محمداحمد

لائبریرین
اب نہ منزل کی طلب ہے نہ کسی ساتھی کی
آپ اِس موڑ پہ آ کر ہمیں بیکار ملے

زیست کو کاٹ رہے ہیں جو سزا کی مانند
عابؔد ایسے بھی ہمیں چند گنہگار ملے
بہت خوب!

یہ سنا تھا کہ ہیں معبود صنم اور خدا
پر یہاں ہَم کو فقط زَر كے پرستار ملے
خوب!
لفظ پرستار کا اچھا استعمال کیا ہے!
 

عاطف ملک

محفلین
موت کا خوف نہیں ہے مجھے یا رب، لیکن
التجا اتنی ہے تجھ سے کہ بس اک بار ملے
واہ۔۔۔۔خوبصورت۔
کیسی بات ایسے عمدہ طرز سے کہہ دی۔کمال
سنا تھا کہ ہیں معبود صنم اور خدا
پر یہاں ہَم کو فقط زَر كے پرستار ملے
کیا بات ہے۔
بہت عمدہ کلام بھیا۔
داد قبول کیجیے۔:applause:
 
واہ۔۔۔۔خوبصورت۔
کیسی بات ایسے عمدہ طرز سے کہہ دی۔کمال

کیا بات ہے۔
بہت عمدہ کلام بھیا۔
داد قبول کیجیے۔:applause:

عاطف صاحب، مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ کو یہ ناچیز کاوش پسند آئی ۔ نوازش، کرم، شکریہ، مہربانی ۔
نیازمند،
عرفان عؔابد
 
Top