غزل: خوش نہیں ہو زندگی سے، جی رہا ہوں عادتاً (مہدی نقوی حجازؔ)

غزل

آج کل میں شام کو پینے لگا ہوں عادتاً
خوش نہیں ہوں زندگی سے، جی رہا ہوں عادتاً


اس نے اپنے یار کی پھر بات چھیڑی دفعتاً
اور میں باتوں میں یوں ہی ہنس پڑا ہوں عادتاً


میں نہ موچی ہوں، نہ وہ سلنے کے قابل ہیں مگر
بیٹھے بیٹھے زخم دل کے سی رہا ہوں عادتاً


جانتا ہوں ہر عمل پابندِ قسمت ہے مگر
کیا کروں انسان ہوں، محوِ دعا ہوں عادتاً


اپنے گھر کا راستہ اب یاد ہے مجھ کو مگر
آتے جاتے اس کا رستہ پو چھتا ہوں عادتاً


جبکہ اب کی بار رنج و غم زیادہ تھے مگر
روتے روتے پھر اچانک چپ ہوا ہوں عادتاً


ایک مدت سے میں صحرا گرد ہوں لیکن حجازؔ
ایک مدت شہر میں دیکھا گیا ہوں عادتاً

مہدی نقوی حجازؔ
 

ابن رضا

لائبریرین
جانتا ہوں ہر عمل پابندِ قسمت ہے مگر
کیا کروں انسان ہوں، محوِ دعا ہوں عادتاً

بہت خوب۔ داد قبول کریں

ویسے حضور موچی کب سے جراحوں کے پیٹ پر لات مارنے لگے ہیں؟:p
 
جانتا ہوں ہر عمل پابندِ قسمت ہے مگر
کیا کروں انسان ہوں، محوِ دعا ہوں عادتاً

بہت خوب۔ داد قبول کریں

ویسے حضور موچی کب سے جراحوں کے پیٹ پر لات مارنے لگے ہیں؟:p
سرکار، سینے سلانے کا کام تو موچی کا ہوتا ہے، گو کہ دل تو یوں بھی چمڑے کی چیز ہے۔۔۔
 

ابن رضا

لائبریرین
سرکار، سینے سلانے کا کام تو موچی کا ہوتا ہے، گو کہ دل تو یوں بھی چمڑے کی چیز ہے۔۔۔
حضورکہاں جوتے کہاں دل:eek:۔۔۔چمڑی تو باہری چیز ہے جناب اور دل اندرونی ، وضع اور ہیت، کار اور انجامِ کار بھی باہم مختلف؟۔۔۔۔۔۔۔تاہم بالفرضِ محال ایسا بھی ہے تو اس کارِ خیر میں درزی پیچھے کیوں؟ ;)
 
حضورکہاں جوتے کہاں دل:eek:۔۔۔ چمڑی تو باہری چیز ہے جناب اور دل اندرونی ، وضع اور ہیت، کار اور انجامِ کار بھی باہم مختلف؟۔۔۔ ۔۔۔ ۔تاہم بالفرضِ محال ایسا بھی ہے تو اس کارِ خیر میں درزی پیچھے کیوں؟ ;)
ٹھیک کہتے ہیں، پھر بھی ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام موچی ہی بطریقِ احسن کر سکتا ہے۔ گو کہ دل کے چاک سینا جراح کا کام تو نہیں ہو سکتا کہ اتنے گہرے زخم اور کھرنڈ نازک سوئی سے نہیں سیے جا سکتے، اور درزی اپنی قینچی کے لیے علامت ہے تو یہاں سلائی کا کام ہے، شاعری تو علامت کی بات کرتی ہے، رہا موچی تو واقعی اس کے پاس بقدرِ کافی بڑے اور سنگین سوئے ہوتے ہیں کہ وہ گہرے چاک سی سکے۔۔۔ (معقولیات میں شمار نہ کیا جائے :) )
 
Top