غزل - بہت سی سازشوں کے درمیاں ہوں -

عظیم

محفلین


بہت سی سازشوں کے درمیاں ہوں
نہایت کافروں کے درمیاں ہوں

کروں کس پر یقیں کوئی بتائے
میں ایسے عابدوں کے درمیاں ہوں

لگائی جا رہی ہے میری قیمت
خودی کے تاجروں کے درمیاں ہوں

میں چھپ کر بیٹھتا ہوں خود سے لیکن
بہت سے ظاہروں کے درمیاں ہوں

یہاں اِس بزمِ غیراں میں مرے دوست
تجھ ایسے دشمنوں کے درمیاں ہوں

کسے جا کر دکھاؤں علم اپنا
ازل سے جاہلوں کے درمیاں ہوں

مری رفتار دیکھی جا سکے کیوں
بڑے ہی کاہلوں کے درمیاں ہوں

مجھے معلوم ہے اپنی حقیقت
میں تیرے غافلوں کے درمیاں ہوں

عظیم اپنی کہی کس کو سناؤں
عجب سے عاقلوں کے درمیاں ہوں
 
Top