غزل برائے اصلاح -اسلوب تو بدلے ہیں ، الفاظ نہیں بدلے ۔ از محمد اظہر نذیر

اسلوب تو بدلے ہیں ، الفاظ نہیں بدلے
اظہار عقیدت کے، انداز نہیں بدلے

بدلے ہیں ذیارت کے کردار کئی لیکن
بطہا کے مکینوں کے اعزاز نہیں بدلے

انجام نیا ہوتا ہے عشق حقیقی کا
تقوٰی ہے قدم پہلا، آغاز نہیں بدلے

کب کس کو بلا لے وہ ، اک اذن عطا کر کے
اللہ دکھاتا ہے، اعجاذ نہیں بدلے

وہ رہ کی صعوبت کو خاطر میں نہیں لاتے
طیبہ کی فضاؤں کے دمساز نہیں بدلے

ناموس رسالت پر، بس کٹ کے جو مر جائیں
مالک کی رضا چاہیں، جانباز نہیں بدلے

مجذوب ہے آقا کا، اظہر نہ کہو اُسکو
رہنے دو اکڑتا ہے، اغماز نہیں بدلے​
 
Top