غزل: اک جرم عزیمت کی سزا کاٹ رہے ہیں

عزیزان گرامی، آداب و تسلیمات.

اردو محفل میں آج پہلی بار توارد ہوا ہے. بندہ ناچیز کا نام احسن ہے، اور یہ "راحل" تخلص کرتا ہے. ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں. اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیے گا.

دعا گو،

راحل
===================================================
اک جرم عزیمت کی سزا کاٹ رہے ہیں
ہم آج بھی ہجرت کی سزا کاٹ رہے ہیں

آزاد فضاؤں میں بہت سخت گھٹن تھی
سو اپنی صداقت کی سزا کاٹ رہے ہیں

اولاد جواں کر کے اب اس دور میں ماں باپ
بے لوث سخاوت کی سزا کاٹ رہے ہیں

پہچان بنائیں بھی تو بنتی نہیں اپنی
اسلاف سے نفرت کی سزا کاٹ رہے ہیں

کم ظرف ہے دشمن کی یہ اولاد، جب ہی ہم
ٹیپو کی شجاعت کی سزا کاٹ رہے ہیں

یہ معاملہ کیا ہے، کہ ہرا کر ہمیں وہ خود
اب جیت کی راحت کی سزا کاٹ رہے ہیں

خود کو بنا کے مغربی اقدار کا پیکر
اس دور کی عزلت کی سزا کاٹ رہے ہیں

تاریکیاں اوڑھے ہوئے، پابند سلاسل
چاک شب ظلمت کی سزا کاٹ رہے ہیں

یہ دار و رسن منزل مقصود ہیں راحل
ہم چونکہ بغاوت کی سزا کاٹ رہے ہیں
 
Top