غزل - اس کے قرب کے سارے ہی آثار لگے - زیب غوری

طالب سحر

محفلین
اُس کے قُرب کے سارے ہی آثار لگے
ہوا میں لہراتے گیسوئے یار لگے

دِل بھی کیا نیرنگِ سرابِ آرزو ہے
رونق دیکھو تو کوئی بازار لگے

میں گھبرا کر تجھ کو پکاروں تو یہ فلک
آنگن بیچ بہت اونچی دیوار لگے

اک بے معنی محوّیت سی ہے شب و روز
سوچو تو جو کچھ ہے سب بیکار لگے

میری اَنا افتادگی میں بھی کیا ہے زیب
کوئی ہاتھ بڑھائے تو تلوار لگے

-- زیب غوری (1928-1985)
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
اس غزل کو محفل پر پیش کرنے سے پہلے، اس کو محفل (اور انٹرنیٹ) پر ڈھونڈا تھا- محفل پر زیب غوری کی ایک ہی غزل ملی جو کہ الف عین صاحب نے تقطیع کے لئے پوسٹ کی تھی- انٹرنیٹ پر زیب غوری کا کچھ کلام ریختہ اور (تقریباً وہی) پنجند پر موجود ہے- جہاں تک مجھے معلوم ہو سکا ہے، ان کی کتابیں ("زرد زرخیز" اور "چاک") اب بازار میں دستیاب نہیں ہیں- کیا کسی کے پاس اسکین یا ای-بک فارمیٹ میں موجود ہیں؟
 
آخری تدوین:
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top