غزل۔۔۔

غزل
دل پہ ہو اختیار نا ممکن
اور ہو انتظار نا ممکن
باغ میں وہ کبھی نہیں آئے
اور آئے بہار نا ممکن
صرف دھوکے ملے ہیں الفت میں
پیار پر اعتبار نا ممکن
تجھ کو اپنا بنا کر چھوڑوں گا
مان لوں گا میں ہار نا ممکن
حوصلہ ہو تو کیا نہیں ہوتا
کس کو کہتے ہیں یار ناممکن
رو رہا ہوں میں أپنی قسمت پر
تو بھی ہو اشکبار نا ممکن
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
مجھ سے ہو جائے پیار نا ممکن
تو نہیں آئے اور اس پر بھی
دل کو آئے قرار نا ممکن
میں نے دنیا کو صرف پیا ردیا
اور بدلہ ہو پیار نا ممکن
پھول سے پیار خار سے نفرت
باغ میں نا ہو خار نا ممکن
قول اور فعل کا جو سچا ہو
وہ بنے مالدار نا ممکن
تجھ کو سہنا پڑے گا اے سیّد
رنج و غم سے فر ار نا ممکن
سیّد ابوبکر مالکی۔۔۔​
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top