عورت ذات بھی عجیب گورکھ دھندا ہے

ابو ہاشم

محفلین
عورت ذات بھی عجیب گورکھ دھندا ہے۔۔ مل جائے تو نظر نہیں آتی، نا ملے تو اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔

عورت کے وجود میں بسی خوبصورتی کا زہر تو ویسے بھی ہر کس و ناکس کی رگ رگ میں دوڑتا ہے۔ پر۔۔۔ یہاں وجود کی خوبصورتی کسے مطلوب ہے؟ بس ایک عجیب سی طلب ہے، جو کسی آتش کدے میں بھڑکتی ہوئی کبھی نا بجھنے والی آگ کی طرح، کب کے تار تار ہوئے دامن کو مزید لپیٹوں میں لیے ہمیشہ سے جلائے چلی آ رہی ہے۔​

کوئی مجھ نادان سے پوچھے کہ ساری عمر کیا کیا ہے تو میں۔۔۔ میرے پاس تو اور کوئی جواب ہی نہیں۔۔۔ صرف اتنا ہی کہہ سکوں گا کہ عورت ذات کی ایک جھلک دیکھنے کا انتظار کیا ہے اور انتظار بھی ایسا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

میں جو آدم کا سب سے نالائق بیٹا ۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں آوارہ فکر، صدیوں کا بھوکا پیاسا، جس نے دل کی امنگوں کی عمر کا تمام حسن اک تلاش کی نذر کیا ہے، جب جب بے خود کر دینے والی کسی چاندنی رات کے سحر کا شکار ہوجاتا ہوں تو مجھے اک نشہ سا چڑھ جاتا ہے، مصنوعی سا، عارضی سا۔ نشہ اترتا ہے تو ۔۔۔ مجھے پھر سے الجھن شروع ہو جاتی ہے ۔۔۔ اونہوں ۔۔۔ اس کا زہر بھی اثر پذیر نہیں ۔۔۔یہ وہ نہیں جس کی مجھے تلاش ہے۔ اور میں پھر سے وقت کی گرد جھاڑ پونچھ کر اک نئی تلاش میں جُت جاتا ہوں۔۔۔ کہ نہیں۔۔۔اس بار بھی نہیں ملی۔ ایک کوشش اور۔۔۔ شاید اگلی بار، شاید۔​

کہاں کہاں نہیں تلاشا۔۔۔کسی کے پاس اکڑ کر گیا، کسی کے پاس گھٹنوں کے بل چل کر، کہیں کورنش بجا لایا اور کہیں قیام کی نیت بھی زیر لب دہرا لی ۔۔۔ کوئی پاس بلا کر کھوج ڈالی اور کسی کو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بس تلاشتا ہی چلا گیا۔

لیکن۔۔۔

میرا ان کہا جذبہ، بے نام سی تڑپ ، دل کی وہ گرہیں جو کسی اور وجود کے چاہنے سے کھل جانی چاہیے تھیں، بند کی بند ہی رہتی ہیں اور میرا دل کنوارے کا کنوارہ ہی رہ جاتا ہے۔ اور میں۔۔۔ پھر سے پُروا میں دُکھنے والے زخموں کی طرح یادوں کے گھاؤ سمیٹے، سنبھالے اک طرف ہو کر بیٹھ رہتا ہوں اور اس دکھ کو، اس تلاش کو جو صرف میری ہے، سینے میں چھپا لیتا ہوں۔​

میرے بے پرواہ دل میں یہ خواہش بھی کبھی نہیں جاگی کہ وہ کوئی پری رخ، شعلہ بدن، ماہ پارہ، مہ جبین ہی ہو، بھلے اس کی رنگت گلاب جامن کے گندھے میدے جیسی نہ ہو اور وہ شاعروں کے تخیل پرواز پر بھی پورا اترنے والی نا ہو ۔۔لیکن وہ عورت زاد تو ہو ۔

رات گئے سمندر کنارے ٹھنڈی یخ ہواؤں سے لڑتے بھڑتے، کسی ایک من پسند اور دل نشین کے اکلوتے پیغام کے انتظار میں رہتے رہتے، میں یہ جان گیا ہوں۔۔۔ کہ میری تلاش شاید ہی کبھی پوری ہو سکے اور میرا بوسیدہ ہوتا بدن ان صعوبتوں کو برداشت کرتے کرتے کسی روز ڈھے جائے گا۔ لیکن۔۔۔۔ میرا دل، جسے خیالوں کی آوارگی نے اب تک خوب بھٹکائے رکھا ہے، مجھے اس تلاش، اس جستجو، اس حصول کی شدت سے کبھی باز نا رہنے دے گا۔
دن ہفتوں میں، ہفتے ماہ و سال اور پھر سال ہا سال میں بیتتے چلے جا رہے ہیں، کئی بار یوں لگتا ہے کہ دم۔۔۔۔ بس اب سینے میں رکنے سا لگا ہے لیکن پھر تلاش کی جستجو اسے بحال کر ڈالتی ہے اور میں نئے سرے سے کسی اور طرف نکل پڑتا ہوں ۔۔۔ کہ اچھا۔۔۔ ایک تلاش اورسہی۔


وہ تلاش جو صبح ازل سے جاری ہے اور شاید دم رخصت تک جاری رہنی ہے۔​


تیرے جیسا میرا بھی حال تھا نہ سکون تھا نہ قرار تھا
یہی عمر تھی میرے ہم نشیں کہ 'کسی کا مجھے بھی انتظار تھا'
 
Top