عمران خان نے بالآخر وجیہہ کمیشن کے سامنے سر تسلیم خم کرکے بہتر فیصلہ کیا

عمران خان نے بالآخر وجیہہ کمیشن کے سامنے سر تسلیم خم کرکے بہتر فیصلہ کیا
اسلام آباد(طارق بٹ)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بالآخر جسٹس(ر)وجیہہ الدین کمیشن کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرکے بہتر فیصلہ کیا ہے جس نے 2013ء کے پارٹی الیکشن میں سنگین بے قاعدگیوں اور قوانین کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے تمام منتخب باڈیز کو تحلیل کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔پی ٹی آئی کے سربراہ کا یہ مثبت اقدام کمیشن کے فیصلے پر عوام میں کافی چہ مگوئیوں کے بعد سامنے آیا حتیٰ کہ عمران خان نے بھی اپنے ہی تشکیل کردہ فورم سے شدید محاذ آرائی کی تاہم سابق جج کا اصرار تھا کہ اس باڈی کو اس طور ختم نہیں کیا جاسکتا۔تفویض شدہ ذمہ داری کے حوالے سے دیکھا جائے تو وجیہہ الدین نے ایک حاضر سروس جج کی طرح ہر شکایت کا عدالتی انداز سے جائزہ لیا۔ان کے فیصلوں کی تحریک انصاف کے سینئر لیڈروں کے ایک گروپ نے مزاحمت کی جو پارٹی کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں اور اس سے براہ راست متاثر ہوئے۔عمران خان نے بھی اس کی مخالفت کی تاہم وجیہہ الدین اور پی ٹی آئی کے مذکورہ لیڈروں میں شدید تنازع کی وجہ سے اڑنے والی گرد بیٹھ گئی تو عمران خان نے کمیشن کا فیصلہ تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔بلا شبہ یہ فیصلہ ایک کڑوی گولی تھا کیونکہ اس کی زد میں مختلف سینئر پارٹی رہنما آرہے تھے۔منتخب باڈیز کو تحلیل کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین نے صوبوں میں عبوری سیٹ اپ کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور کو پنجاب کا آرگنائزر بنایا ہے۔بظاہر یہ ایک اچھا انتخاب نہیں ۔وہ صوبہ جہاں عمران خان کے مطابق آئندہ الیکشن کے بعد اعلیٰ ترین سرکاری منصب حاصل کرنے کا خواب سچا کرنے کے لئے ان کے بڑے سٹیک ہیں کے ایسے عہدے کے لئے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جس کی عوام میں جڑیں ہوتیں اور وہ لمبے عرصے سے پارٹی سیاست سے وابستہ ہوتا۔اعجاز چوہدری، علیم خان، صداقت عباسی اور دیگر کئی سینئر رہنما جو سالوں سے تحریک انصاف سے وابستہ ہیں اور انہیں پارٹی کا محافظ سمجھا جاتا ہے کو نظر انداز کردیا گیا۔ایک نئے شخص کو اس پرکشش عہدے سے نوازا گیا۔ان کے نائب عزیز اللہ کا بھی عوام میںخاص مقبولیت حاصل نہیں۔سندھ میں ڈاکٹر عارف علوی کو عبوری سیٹ اپ کا انچارج بنایا جانا مناسب فیصلہ لگتا ہے کیونکہ وہ زیادہ تر اہم ایشوز بالخصوص کراچی میں عوامی کمپینز میں سرگرم رہے ہیں۔مزید برآں وہ ٹی وی ٹاک شوز میں تواتر سے تحریک انصاف کی نمائندگی کرتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں اعظم سواتی کو اہم ترین ذمہ داری دینے کے باوجود جو حال ہی میں سینیٹر بنے ہیں عمران خان نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے یوسف ایوب کو چنا ،وہ ہری پور سے تعلق رکھتے ہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین نے عبوری سیٹ اپ کے ذمہ داروں کے پارٹی الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی لگائی ہے۔نئے پارٹی انتخابات غالباً آئندہ پارلیمانی انتخابات سے پہلے ہی ہوں گے۔ عمران خان اس عمل کے انتظامات کے لئے ایک نئے سیٹ اپ کا اعلان کریں گے۔پچھلی مرتبہ انہوں نے مئی 2013ء کے عام انتخابات سے صرف 2 ماہ قبل پارٹی انتخابات کا اعلان کیا تھا جوکہ ایک اچھا مگر بے وقت فیصلہ تھا جس نے پارٹی کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچایا۔اس اقدام نے پارٹی کی غیر متوازن اپروچ کو آشکار کیا۔ایسے وقت میں جب سب جماعتیں زبردست طریقے سے سرگرم عمل تھیں اور پارلیمانی انتخابات کے لئے مہم چلائی جارہی تھیں تو تحریک انصاف پارٹی انتخابات میں مصروف تھی جس نے شدید اندرونی لڑائیوں اور چپقلشوں کو ہوا دی اور اس سارے عمل پر اثر انداز ہونے کے لئے پیسے اور اثروسوخ کے استعمال کے الزامات عائد کئے گئے۔لیڈروں کے مختلف جتھے پارٹی عہدوں کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے جس کے نتیجے میں قوانین کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں۔ تحریک انصاف اپنے انتخابات کی وجہ سے عام انتخابات کی کمپین پر توجہ مرکوز نہ کرسکی۔پارٹی الیکشنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی تلخی کبھی بھی مکمل طور پر زائل نہ ہوسکی۔بالآخر دسمبر2013ء میں تحریک انصاف کے سربراہ نے پارٹی الیکشنز کے حوالے سے تحقیقات کے لئے وجیہہ الدین کمیشن تشکیل دیا۔ایک سچے منصف کا کردار ادا کرتے ہوئے وجیہہ الدین نے اکتوبر 2014ء میں اپنا فیصلہ سنایا اور پارٹی کی تمام منتخب باڈیز کو تحلیل کرتے ہوئے 18 مارچ 2015ء سے قبل نئے الیکشن کرانے کا حکم دیا۔اس کے علاوہ عمران خان کے معتمد ہونے کے باوجود انہوں نے کور کمیٹی اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کو بھی ہدف بنایا ۔تحریک انصاف کے سربراہ نے کمیشن کے فیصلے پر عمل کرنے سے انکار کردیا ۔ کھلے عام لفظی جنگ کی بناء پر وجیہہ الدین نے عمران خان کوبھی طلب کیا جنہوں نے پیش ہونے سے انکارکردیا اور کمیشن کو ہی یہ کہہ کر تحلیل کردیا کہ عملی طور پر اس کا وجود ختم ہوچکا ہے اور اس کے اراکین کے پاس اب کوئی اختیار نہیں رہا کیونکہ یہ ایک خاص مقصد کے تحت بنایا گیا تھا تاہم چند ہفتے کے بعد انہوں نے وجیہہ الدین کا فیصلہ مان لیا جوکہ مجموعی طورپر خوش آئند بات ہے۔
 
Top