علی امام من است و منم غلام علی۔۔ ہاشم نوگانوی

سیما علی

لائبریرین
علی امام من است و منم غلام علی
ہزار جان گرامی فدا بنام علی

خدا کے شیر سے سائل نے یہ سوال کیا
کھلا دو کھانا مجھے بھوکا ہوں کئی دن کا

علی کے پاس تھا کیا خشک روٹیوں کے سوا
بٹھا کے ساتھ میں سائل سے بولے بسم اللہ

اٹھا کے ایک جو ٹکڑا چبایا سائل نے
چبا نہیں تو پشیماں ہوا بہت دل میں

کہا علی سے کہ میں ان کو کھا نہیں سکتا
کسی طرح بھی یہ ٹکڑے چبا نہیں سکتا

علی نے گھر کا حسن کے پتہ دیا اس کو
لذیذ کھانے وہاں پر ملیں گے جا تجھ کو

وہاں سے سیدھا وہ سائل حسن کے گھر آیا
علی کے لال نے چاہت سے اس کو بٹھلا یا

بہت سے کھانے وہاں پر جو دیکھے سائل نے
علی کے بارے میں وہ سوچنے لگا دل میں

کھلاؤں ان کو بھی کھانا ذرا سا لے جاکے
مری طرح سے کئی دن کے ہیں انہیں فاقے

یہ کر کے فیصلہ کھانے کو وہ چھپانے لگا
حسن نے دیکھ کے آہستگی سے فرمایا

بہت ہے کھانا یہاں پر تو اطمینان سے کھا
ہے گھر پہ جتنی ضرورت تو شوق سے لے جا

سوال سنتے ہی سائل نے یہ جواب دیا
جہاں میں کوئی نہیں ہے مرا خدا کے سوا

ملا تھا مسجد کوفہ میں اک غریب بشر
جو سوکھی روٹیاں کھا کھا کے کر رہا ہے گزر

اسی نے آپ کے گھر کا پتہ بتایا ہے
اسی کا کھانے میں مجھ کو خیال آیا ہے

اگر ہو آپ کی مرضی تو کھانا لے جاؤں
نہیں تو ساتھ میں جا کر میں اس کو لے آؤں

علی کے لال نے سن کر کہا یہ سائل سے
نہیں ہے تو ابھی واقف ہی مرد کامل سے

جو خشک روٹیاں کھاتے ہیں مرتضیٰ ہیں وہ
خدا کے شیر ہیں داماد مصطفیٰ ہیں وہ

اسی طرح وہ مشکل کشائی کرتے ہیں
وہ فاقہ کر کے غریبوں کا پیٹ بھرتے ہیں

خدا کے شیر کو بھائی نہ تونے پہچانا
ملے تھے جو تجھے مسجد میں میرے ہیں بابا

یہ راز جان کے سائل سے ضبط ہو نہ سکا
رواں تھے آنکھ سے آنسو زباں پہ تھا نعرہ

علی امام من است و منم غلام علی
 
Top