عقل کا فیصلہ

شکیل احمد

محفلین
عقل کا فیصلہ (ابوالاعلی مودودی)
بڑے بڑے شہروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ سینکڑوں کارخانے بجلی کی قوت سے چل رہے ہیں۔ ریلیں اور ٹرام گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ شام کے وقت دفعتًا ہزاروں قمقمے روشن ہو جاتے ہیں۔ گرمی کے زمانہ میں گھر گھر پنکھے چلتے ہیں۔ مگر ان واقعات سے نہ تو ہمارے اندر حیرت و استعجاب کی کوئی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور نہ ان چیزوں کے روشن یا متحرک ہونے کی علّت میں کسی قسم کا اختلاف ہمارے درمیان واقع ہوتا ہے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ قمقموں کا تعلق جن تاروں سے ہے ان کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان تاروں کا تعلق جس بجلی گھر سے ہے اس کا حال بھی ہم کو معلوم ہے۔ اس بجلی گھر میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے وجود کا بھی ہم کو علم ہے۔ ان میں کام کرنے والوں پر جو انجنیئر نگرانی کر رہا ہے اس کو بھی ہم جانتے ہیں۔ ہم کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ انجنیئر بجلی بنانے کے کام سے واقف ہے۔ اُس کے پاس بہت سے کلیں ہیں اور ان کلوں کو حرکت دے کر وہ اس قوت کو پیدا کر رہا ہے جس کے جلوے ہم کو قمقموں کی روشنی، پنکھوں کی گردش، ریلوں اور ٹرام گاڑیوں کی سیر، چکیوں اور کارخانوں کی حرکت میں نظر آتے ہیں۔ پس بجلی کے آثار کو دیکھ کر اس کے اسباب کے متعلق ہمارے درمیان اختلاف رائے واقع نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اسباب کا پُورا سلسلہ ہمارے محسوسات میں داخل ہے، اور ہم اس کو مشاہدہ کر چکے ہیں۔
فرض کیجیے کہ یہی قمقمے روشن ہوتے، اسی طرح پنکھے گردش کرتے، یونہی ریلیں اور ٹرام گاڑیاں چلتیں، چکیاں اور مشینیں حرکت کرتیں، مگر وہ تار جن سے بجلی ان میں پہنچتی ہے، ہماری نظروں سے پوشیدہ ہوتے ، بجلی گھر بھی ہمارے محسوسات کے دائرے سے خارج ہوتا، بجلی گھر میں کام کرنے والوں کا بھی ہم کو کچھ علم نہ ہوتا اور یہ بھی معلوم نہ ہوتا کہ اس کارخانہ کا کوئی انجنیئر ہے جو اپنے علم اور قدرت سے اس کو چلا رہا ہے۔ کیا اُس وقت بھی بجلی کے ان آثار کو دیکھ کر ہمارے دل ایسے ہی مطمئن ہوتے؟ کیا اس وقت بھی ہم اسی طرح ان مظاہر کی علتوں میں اختلاف نہ کرتے؟ ظاہر ہے کہ آپ اس کا جواب نفی میں دیں گے، کیوں؟ اس لیے کہ جب آثار کے اسباب پوشیدہ ہوں اور مظاہر کی علتیں غیر معلوم ہوں تو دلوں میں حیرت کے ساتھ بے اطمینانی کا پیدا ہو جانا، دماغوں کا اس رازِ سربستہ کی جستجو میں لگ جانا، اور اس راز کے متعلق قیاسات و آراء کا مختلف ہونا ایک فطری بات ہے۔
فریق اول۔ قیاس و گمان کرنے والے
اب ذرا اِسی مفروضے پر سلسلہ کلام کو آگے بڑھائیے۔ مان لیجیے کہ یہ جو کچھ فرض کیا گیا ہے در حقیقت عالَمِ واقعہ میں موجود ہے۔ ہزاروں لاکھوں قمقمے روشن ہیں، لاکھوں پنکھے چل رہے ہیں، گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، کارخانے حرکت کر رہے ہیں اور ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان میں کون سی قوت کام کر رہی ہے اور وہ کہاں سے آتی ہے۔ لوگ ان مظاہر و آثار کو دیکھ کر ششدر ہیں۔ ہر شخص ان کے اسباب کی جستجو میں عقل کے گھوڑے دوڑا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ سب چیزیں آپ سے آپ روشن یا متحرک ہیں، ان کے اپنے وجود سے خارج کوئی ایسی چیز نہیں جو انہیں روشنی یا حرکت بخشنے والی ہو۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ چیزیں جن مادوں سے بنی ہوئی ہیں انہی کی ترکیب نے ان کے اندر روشنی اور حرکت کی کیفیتیں پیدا کر دی ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس عالم مادہ سے ماوراء چند دیوتا ہیں جن میں سے کوئی قمقمے روشن کرتا ہے، کوئی ٹرام اور ریلیں چلاتا ہے، کوئی پنکھوں کو گردش دیتا ہے اور کوئی کارخانوں اور چکیوں کا محرک ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو سوچتے سوچتے تھک گئے ہیں اور آخر میں عاجز ہو کر کہنے لگے ہیں کہ ہماری عقل اس طلسم کی کُنہ تک نہیں پہنچ سکتی، ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور جو کچھ ہماری سمجھ میں نہ آئے اُس کی نہ ہم تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ تکذیب۔
یہ سب گروہ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں مگر اپنے خیال کی تائید اور دوسرے خیالات کی تکذیب کے لیے ان میں سے کسی کے پاس بھی قیاس اور ظن و تخمین کے سوا کوئی ذریعہ علم نہیں ہے۔
فریق دوم: حاملانِ علم
اس دوران میں کہ یہ اختلافات برپا ہیں، ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ بھائیو میرے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے۔ اس ذریعہ سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان سب قمقموں، پنکھوں، گاڑیوں، کارخانوں اور چکیوں کا تعلق چند مخفی تاروں سے ہے جن کو تم محسوس نہیں کرتے۔ ان تاروں میں ایک بہت بڑے بجلی گھر سے وہ قوت آتی ہے جس کا ظہور روشنی اور حرکت کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس بجلی گھر میں بڑی بڑی عظیم الشان کلیں ہیں جنہیں بےشمار اشخاص چلا رہے ہیں، یہ سب اشخاص ایک بڑے انجینیئر کے تابع ہیں، اور وہی انجینیئر ہے جس کے علم اور قدرت نے اس پورے نظام کو قائم کیا ہے۔اسی کی ہدایت اور نگرانی میں یہ سب کام ہو رہے ہیں۔
یہ شخص پوری قوت سے اپنے اس دعوے کو پیش کرتا ہے۔ لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں، سب گروہ مل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں، اسے دیوانہ قرار دیتے ہیں، اس کو مارتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں۔ مگر وہ ان سب روحانی اور جسمانی مصیبتوں کے باوجود اپنے دعوے پر قائم رہتا ہے۔ کسی خوف یا لالچ سے اپنے تول میں ذرّہ برابر ترمیم نہیں کرتا۔ کسی مصیبت سے اس کے دعوے میں کمزوری نہیں آتی۔ اس کی ہر ہر بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو اپنے قول کی صداقت پر کامل یقین ہے۔
اس کے بعد ایک دوسرا شخص آتا ہے اور وہ بھی بجنسہٕ یہی قول اسی دعوے کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ پھر تیسرا، چوتھا، پانچواں آتا ہے اور وہی بات کہتا ہے جو اس کے پیشروؤں نے کہی تھی۔ اس کے بعد آنے والوں کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے، یہاں تک کہ ان کی تعداد سینکڑوں اور ہزاروں سے متجاوز ہو جاتی ہے، اور یہ سب اسی ایک قول کو اسی ایک دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ زمان و مکان کے اختلاف کے باوجود ان کے قول میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ سب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ سب کو دیوانہ قرار دیا جاتا ہے۔ ہر طرح کے ظلم و سِتم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر طریقہ سے ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اپنے قول سے باز آ جائیں۔ مگر سب کے سب اپنی بات پر قائم رہتے ہیں اور دنیا کی کوئی قوت ان کو اپنے مقام سے ایک انچ نہیں ہٹا سکتی۔ اس عزم و استقامت کے ساتھ اُن لوگوں کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ ان میں سے کوئی جھوٹا، چور، خائن، بدکار، ظالم اور حرام خور نہیں ہے۔ ان کے دشمنوں اور مخالفوں کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ ان سب کے اخلاق پاکیزہ ہیں، سیرتیں انتہا درجہ کی نیک ہیں، اور حسنِ خلق میں یہ اپنے دوسرے ابنائے نوع سے ممتاز ہیں۔ پھر ان کے اندر جنون کا بھی کوئی اثر نہیں پایا جاتا بلکہ اس کے برعکس وہ تہذیبِ اخلاق، تزکیہ نفس اور دنیوی معاملات کی اصلاح کے لیے ایسی ایسی تعلیمات پیش کرتے اور ایسے ایسے قوانین بناتے ہیں جن کے مثل بنانا تو درکنار بڑے بڑے علماء اور عقلاء کو ان کی باریکیاں سمجھنے میں پوری پوری عمریں صَرف کر دینی پڑتی ہیں۔
عقل کی عدالت میں:
ایک طرف وہ مختلف الخیال مکذّبین ہیں اور دوسرے طرف یہ متّحد الخیال مدّعی۔ دونوں کا معاملہ عقلِ سلیم کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ جج کی حیثیت سے عقل کا فرض ہے کہ پہلے اپنی پوزیشن کو خوب سمجھ لے، پھر فریقین کی پوزیشن کو سمجھے، اور دونوں کا موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ کرے کہ کس کی بات قابل ترجیح ہے۔
جج کی اپنی پوزیشن یہ ہے کہ خود اس کے پاس امرِ واقعی کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ وہ خود حقیقت کا علم نہیں رکھتا۔ اس کے سامنے صرف فریقین کے بیانات، ان کے دلائل، ان کے ذاتی حالات اور خارجی آثار و قرائن ہیں۔ انہی پر تحقیق کی نظر ڈال کر اُسے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کا برحق ہونا اغلب ہے۔ مگر اغلبیت سے بڑھ کر بھی وہ کوئی حکم نہیں لگا سکتا، کیونکہ مسل پر جو کچھ مواد ہے اس کی بنا پر یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہے کہ امرِ واقعی کیا ہے۔ وہ فریقین میں سے ایک کو ترجیح دے سکتا ہے، لیکن قطعیّت اور یقین کے ساتھ کسی کی تصدیق یا تکذیب نہیں کر سکتا۔
مکذبین کی پوزیشن یہ ہے:
1۔حقیقت کے متعلق ان کے نظریے مختلف ہیں اور کسی ایک نکتہ میں بھی ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے۔ حتی کہ ایک ہی گروہ کے افراد میں بسا اوقات اختلاف پایا گیا ہے۔
2۔وہ خود اقرار کرتے ہیں کہ ان کے پاس علم کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہو۔ ان میں سے کوئی گروہ اس سے زیادہ کسی چیز کا مدعی نہیں ہے کہ ہمارے قیاسات دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ وزنی ہیں۔ مگر اپنے قیاسات کا قیاسات ہونا سب کو تسلیم ہے۔
3۔ اپنے قیاسات پر ان کا اعتقاد، ایمان و یقین اور غیر متزلزل وثوق کی حد تک نہیں پہنچا ہے۔ ان میں تبدیلی رائے کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ ان میں کا ایک شخص کل تک جس نظریہ کو پورے زور کے ساتھ پیش کر رہا تھا، آج خود اسی نے اپنے پچھلے نظریہ کی تردید کر دی اور ایک دوسرا نظریہ پیش کر دیا۔ عمر، عقل، علم اور تجربے کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔
4۔ مدعیوں کی تکذیب کے لیے ان کے پاس بجز اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی صداقت کا کوئی یقینی ثبوت نہیں پیش کیا، انہوں نے مخفی تارہم کو نہیں دکھائے جن کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ قمقموں اور پنکھوں وغیرہ کا تعلق انہی سے ہے، نہ انہوں نے بجلی کا وجود تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت کیا، نہ بجلی گھر کی ہمیں سیر کرائی، نہ اس کی کلوں اور مشینوں کا معائنہ کرایا، نہ اس کے کارندوں میں سے کسی سے ہماری ملاقات کرائی، نہ کبھی انجینئر سے ہم کو ملایا، پھر ہم یہ کیسے مان لیں کہ یہ سب کچھ حقائق ہیں؟
مدعیوں کی پوزیشن یہ ہے۔
1۔ وہ سب آپس میں متفق القول ہیں۔ دعویٰ کے جتنے بنیادی نکات ہیں، ان سب میں ان کے درمیان کامل اتفاق ہے۔
2۔ ان سب کا متفقہ دعویٰ یہ ہے کہ ہماے پاس علم کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو عام لوگوں کا پاس نہیں ہے۔
3۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم اپنے قیاس یا گمان کی بنا پر ایسا کہتے ہیں بلکہ سب نے بالا تفاق کہا ہے کہ انجینئر سے ہمارے خاص تعلقات ہیں۔ اس کے کارندے ہمارے پاس آتے ہیں، اس نے اپنے کارخان کی سیر بھی ہم کو کرائی ہے اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم و یقین کی بنا پر کہتے ہیں۔ ظن و تخمین کی بنا پر نہیں کہتے۔
4۔ ان میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی نے اپنے بیان میں ذرہ برابر بھی تغیرو تبدل کیا ہو۔ ایک ہی بات ہے جو ان میں کا ہر شخص دعویٰ کے آغاز سے زندگی کے آخری سانس تک کہتا رہا ہے۔
5۔ ان کی سیرتیں انتہاد درجہ کی پاکیزہ ہیں۔ جھوٹ، فریب، مکاری، دغا بازی کا کہیں شائبہ تک نہیں ہے او رکوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جو لوگ زندگی کے تمام معاملات میں سچے اور کھرے ہوں، وہ خاص اسی معاملہ میں بالا تفاق کیوں جھوٹ بولیں۔
6۔ اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ دعوٰی پیش کرنے سے ان کے پیشِ نظر کوئی ذاتی فائدہ تھا۔ برعکس اس کے یہ ثابت ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر نے اس دعوے کی خاطر سخت مصائب برداشت کیے ہیں، جسمانی تکلیفیں سہیں، قید کیے گئے، مارے گئے اور پیٹے گئے، جلا وطن کیے گئے، بعض قتل کر دیے گئے، حتیٰ کہ بعض کو آرے سے چیر ڈالا گیا، اور چند کے سوا کسی کو بھی خوش حالی اور فارغ البالی کی زندگی میسرنہ ہوئی۔ لہٰذا کسی ذاتی غرض کا الزام ان پر نہیں لگایا جا سکتا۔ بلکہ ان کا ایسے حالات میں اپنے دعوے پر قائم رہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کو اپنی صداقت پر انتہا درجے کا یقین تھا۔ ایسا یقین کہ اپنی جان بچانے کے لیے بھی ان میں سے کوئی اپنے دعوے سے باز نہ آیا۔
7۔ ان کے متعلق مجنون یا فاتر العقل ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔زندگی کے تمام معاملات میں وہ سب کے سب غایت درجہ کے دانشمند اور سلیم العقل پائے گئے ہیں۔ ان کے مخالفین نے بھی اکثر ان کی دانشمندی کا لوہا مانا ہے۔ پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ ان سب کو اسی خاص معاملہ میں جنون لاحق ہو گیا ہو؟ اور وہ معاملہ بھی کیسا؟ جو اُن کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہو۔ جس کے لیے انہوں نے دنیا بھر کا مقابلہ کیا ہو۔ جس کی خاطر وہ سالہا سال دنیا سے لڑتے رہے ہوں۔ جو ان کی ساری عاقلانہ تعلیمات (جن کے عاقلانہ ہونے کا بہت سے مکذّبین کو بھی اعتراف ہے) اصل الاصول ہو۔
8۔ انہوں نے خود بھی یہ نہیں کہا کہ ہم انجینیئر یا اس کے کارندوں سے تمہاری ملاقات کرا سکتے ہیں، یا اس کا مخفی کارخانہ تمہیں دکھا سکتے ہیں، یا تجربہ اور مشاہدہ سے اپنے دعوے کو ثابت کر سکتے ہیں۔ وہ خود ان تمام امور کو “غیب” سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ہم پر اعتماد کرو اور جو کچھ ہم بتاتے ہیں اسے مان لو۔
عدالت عقل کا فیصلہ
فریقین کی پوزیشن اور ان کے بیانات پر غور کرنے کے بعد اب عقل کی عدالت اپنا فیصلہ صادر کرتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ چند مظاہر و آثار کو دیکھ کر ان کے باطنی اسباب و علل کی جستجو دونوں فریقوں نے کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ بادی النظر میں سب کے نظریات اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ اوّلًا اُن میں سے کسی میں استحالہ عقلی نہیں ہے، یعنی قوانین عقلی کے لحاظ سے کسی نظریہ کے متعلق نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کا صحیح ہونا غیرممکن ہے۔ ثانیًا ان میں سے کسی کی صحت تجربے یا مشاہدے سے ثابت نہیں کی جا سکتی۔ نہ فریق اول میں سے کوئی گروہ اپنے نظریات کا ایسا سائنٹفک ثبوت دے سکتا ہے جو ہر شخص کو یقین کرنے پر مجبور کر دے، اور نہ فریق ثانی اس پر قادر یا اس کا مدعی ہے۔ لیکن مزید غوروتحقیق کے بعد چند امور ایسے نظر آتے ہیں جن کی بنا پر تمام نظریات میں سے فریق ثانی کا نظریہ قابل ترجیح قرار پاتا ہے۔
اولًا، کسی دوسرے نظریے کی تائید اتنے کثیر التعداد عاقل، پاک سیرت، صادق القول آدمیوں نے متفق ہو کر اتنی قوت اور اتنے ایمان کے ساتھ نہیں کی ہے۔
ثانیًا، ایسے پاکیزہ کیریکٹر اور اتنے کثیر التعداد لوگوں کا مختلف زمانوں اور مختلف مقامات میں اِس دعوے پر متفق ہو جاتا کہ ان سب کے پاس ایک غیرمعمولی ذریعہ علم ہے، اور ان سب نے اس ذریعہ سے خارجی مظاہر کے باطنی اسباب کو معلوم کیا ہے، ہم کو اس دعوے کی تصدیق پر مائل کر دیتا ہے۔ خصوصًا اس وجہ سے کہ اپنی معلومات کے متعلق ان کے بیانات میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جو معلومات انہوں نے بیان کی ہیں ان میں کوئی استحالہ عقلی بھی نہیں ہے اور نہ یہ بات قوانین عقلی کی بنا پر محال قرار دی جا سکتی ہے کہ بعض انسانوں میں کچھ ایسی غیرمعمولی قوتیں ہوں جو عام طور پر دوسرے انسانوں میں نہ پائی جاتی ہوں۔
ثالثًا، خارجی مظاہر کی حالت پر غور کرنے سے بھی اغلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ فریقِ ثانی کا نظریہ صحیح ہو۔ اس لیے کہ قمقمے، پنکھے، گاڑیاں، کارخانے وغیرہ نہ تو آپ سے آپ روشن اور متحرک ہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ان کا روشن اور متحرک ہونا ان کے اپنے اختیار میں ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔نہ اُن کی روشنی و حرکت ان کے مادہ جسمی کی ترکیب کا نتیجہ ہے، کیونکہ جب وہ متحرک و روشن نہیں ہوتے اس وقت بھی یہی ترکیبِ جسمی موجود رہتی ہے۔ نہ ان کا الگ الگ قوتوں کے زیرِ اثر ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ بسا اوقات جب قمقموں میں روشنی نہیں ہوتی تو پنکھے بھی بند ہو جاتے ہیں، ٹرام کاریں بھی موقوف ہو جاتی ہیں اور کارخانے بھی نہیں چلتے۔ لہٰذا خارجی مظاہر کی توجیہ میں فریق اول کی طرف سے جتنے نظریات پیش کیے گئے ہیں، وہ سب بعید از عقل و قیاس ہیں۔ زیادہ صحیح یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ان تمام مظاہر میں کوئی ایک قوت کارفرما ہو اور اس کا سررشتہ کسی ایسے حکیم توانا کے ہاتھ میں ہو جو ایک مقررہ نظام کے تحت اس قوّت کو مختلف مظاہر میں صَرف کر رہا ہو۔
باقی رہا مشککین کا یہ قول کہ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آیت، اور جو بات ہماری سمجھ میں نہ آئے اس کی تصدیق یا تکذیب ہم نہیں کر سکتے، تو حاکمِ عقل اس کو بھی درست نہیں سمجھتا کیونکہ کسی بات کا واقعہ ہونا اس کا محتاج نہیں ہے کہ وہ سُننے والوں کی سمجھ میں بھی آ جائے۔ اس کے وقوع کو تسلیم کرنے لیے معتبر اور متواتر شہادت کافی ہے۔ اگر ہم سے چند آدمی آ کر کہیں کہ ہم نے زمینِ مغرب میں آدمیوں کو لوہے کی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہوا پر اُڑتے دیکھا ہے، اور اپنے کانوں سے لندن میں بیٹھ کر امریکا کا گانا سُن آئے ہیں، تو ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جھوٹے اور مسخرے تو نہیں ہے؟ ایسا بیان کرنے میں ان کی کوئی ذاتی غرض تو نہیں ہے؟ ان کے دماغ میں کوئی فتور تو نہیں ہے؟ اگر ثابت ہو گیا کہ وہ نہ جھُوٹے ہیں، نہ مسخرے، نہ دیوانے، نہ ان کا کوئی مفاد اس سے وابستہ ہے۔ اور اگر ہم نے دیکھا کہ اس کو بلا اختلاف بہت سے سچے اور عقل مند لوگ پوری سنجیدگی کے ساتھ بیان کر رہے ہیں تو ہم یقینًا اس کو تسلیم کر لیں گے، خواہ لوہے کی گاڑیوں کا ہوا پر اُڑنا اور کسی محسوس واسطہ کے بغیر ایک جگہ کا گانا کئی ہزار میل کے فاصلہ پر سُنائی دینا کسی طرح ہماری سمجھ میں نہ آتا ہو۔
ایمان کیسے نصیب ہوتا ہے۔
یہ اس معاملہ میں عقل کا فیصلہ ہے مگر تصدیق و یقین کی کیفیت جس کا نام “ایمان” ہے اس سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے لیے وجدان کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دل کے ٹھک جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ اندر سے ایک آواز آئے جو تکذیب، شک اور تذبذب کی تمام کیفیتوں کا خاتمہ کر دے اور صاف کہہ دے کہ لوگوں کی قیاس آرائیاں باطل ہیں، سچ وہی ہے جو سچے لوگوں نے قیاس سے نہیں بلکہ علم و بصیرت کی رُو سے بیان کیا ہے۔
 
Top