عشق میں خاک جو دَر دَر کی اُڑانے لگ جائیں ۔ زین شکیل

حسرت جاوید

محفلین
عشق میں خاک جو دَر دَر کی اُڑانے لگ جائیں
وہ بھلا کیسے تجھے سب سے چُھپانے لگ جائیں

ہم کہیں جائیں تری سمت چلے جاتے ہیں
جیسے رستے ہی تری سمت کو جانے لگ جائیں

ایسے بے مہر ہیں پہلے تجھے ڈھونڈیں ہر سُو
اور پاتے ہی تجھے پھر سے گنوانے لگ جائیں

حُسنِ یزداں کا کہا کیا کہ یہی چاہتا ہے
ایک دیوار سے سارے ہی دِوانے لگ جائیں

ہم اسیرانِ محبت کا یہی کام ہے بس
زخم میں رنگ بھریں، درد کمانے لگ جائیں

مثلِ درویش تجھے ماننے والے کچھ لوگ
آستانے سے ترے ہم کو اُٹھانے لگ جائیں

رات دن بس اسی صورت ہی کٹے جاتے ہیں
اک تجھے یاد کریں، تجھ کو بھلانے لگ جائیں

ایسی تاریک شبوں بیچ پڑے ہیں جن میں
نیند بھی جبر کرے، خواب ڈرانے لگ جائیں

یوں ترے ہجر میں ہم رکھیں بہت اپنا خیال
اشک ہی پینے لگیں، درد ہی کھانے لگ جائیں

اے مرے ہوش رُبا شہر کو مت چھوڑ کے جا
یہ نہ ہو لوگ ترے شہر سے جانے لگ جائیں

کاش کہ حشر میں رو رو کے ترے سارے ستم
میرے کاندھوں کے فرشتے بھی سنانے لگ جائیں

زینؔ اب دل میں فقط ایک یہی حسرت ہے
وہ مرے نام کو لکھ لکھ کے مٹانے لگ جائیں

زین شکیل​
 
آخری تدوین:
Top