فراز عشق بس ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے ، یوں ہے

ساقی۔

محفلین
عشق بس ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے ، یوں ہے

یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے ، یوں ہے


جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے

ایک سایہ نہ دروں ہے ، نہ بروں ہے ، یوں ہے


تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے

عشق کا نام خِرد ہے نہ جنوں ہے ، یوں ہے


اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے

اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے ، یوں ہے


تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر

نوکِ ہر خار پے اک قطرۂ خوں ہے ، یوں ہے


ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے

روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے ، یوں ہے


شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز

یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے ، یوں ہے
 
Top