عزتِ نفس اورچھترول

میڈیا کی آزادی اب زندگی کے ہر پہلو پر اثر انداز ہونا شروع ہو گئی ہے۔چند سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدر سرعت کے ساتھ معاشرے میں ہونی والی برائی یا کوئی ایسا خفیہ گوشہ آن کی آن میں ساری دنیا کے سامنے آجائے گا اور مہذب معاشروں میں اس کا خاطر خواہ ردعمل بھی ہوگا لیکن حیرت ہے ان افراد کی سوچ پر جو آج بھی بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کوئی پرواہ کئے بغیر اپنی اسی پرانی روش کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔اس کی تازہ مثال اپنے ٹی وی سیٹ پر ہر ایک لمحے میں دیکھتے ہونگے کہ کس طرح ملک کے وہ ادارے جن کا سلوگن ہی ” عوام کی خدمت“ہے وہ کس طرح اس ملک کے عوام کی عزتِ نفس کو
28875d1266969338t-01-jpg



پامال کر تے ہیں۔لفظ ”چھترول“ایک خالصتاًپولیس تھانوں کی زبان میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی عملی تصویر میڈیا نے کئی مرتبہ پیش کرکے ملک کے عوام کو اس سے متعارف کروادیا ہے لیکن ان دنوں حکومت اوراس کے اتحادیوں میں جوچھترول ہورہی ہے اس نے جہاں ایک عجیب دلچسپ صورتحال پیداکردی ہے وہاں نواز شریف اورالطاف حسین کی لفظی چھترول اس ملک کا گویا سب سے بڑا موضوع بن گیا ہے اور شائد کچھ دنوں کےلئے ایوان صدر پرجو چھترول ہو رہی تھی اب اس میں کچھ کمی واقع ہوگئی ہے۔
لیکن کبھی آپ نے اپنے معاشرے پر غور کیا ہے کہ اس ملک میں ہر قدم پر انسانوں کی عزتِ نفس پر جو چھترول ہو رہی ہے اس میں ہمارا کردار کیا ہے؟آیئے میں آپ کو اسی معاشرے کے چندکرداروں سے ملواتا ہوںجو ہر لمحے آپ کی آنکھوں کے سامنے سرزد ہوتے ہیں اور ہم نے اب اس کو ایک معمول سمجھ کر اس پر غور کرنا بھی چھوڑ دیا ہے۔
اکثر آپ نے گھومتی ہوئی کرسیوں‘بڑی بڑی میزوں‘آراستہ دفاتراور دروازوں پر کھڑے دربانوں میں بیٹھے ہوئے یہ لوگ جن کے چہروں پر ہر دوسرے لمحے موسم بدلتے ہیں‘کبھی مسکراہٹ اور خوشامد کا موسم اور کبھی غصے اور حقارت کی رت دیکھی ہوگی۔یہ لوگ ذلت سہنا بھی خوب جانتے ہیں اور موقع ملے تو کسی کی تذلیل سے بھی باز نہیں آتے۔ہم نے بچپن سے لیکر آج تک ان کو ہر زاویے سے دیکھا ہے ‘ان کی تیز گزرتی گاڑیوں کی دھول بھی کھائی ہے ‘ان کے دروازوں پر گھنٹوں ملاقاتیوں کا ایک جم غفیر بھی دیکھا ہے‘ان کے ساتھ ایک عام شہری کی طرح گفتگو‘سوال و جواب کا منظر بھی ازبر ہے‘ان کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے مزاجوںاور چند ثانیوں میں تبدیل ہوتے لہجوں کو بھی دیکھا ہے۔لیکن پتہ نہیں کیوںاس سارے گورکھ دھندے میں مجھے صرف ایک چیز پاوں میں روندتی ہوئی نظر آتی ہے صرف ایک متاع ہے جو زخم زخم ہوتی ہے اور وہ ہے انسان کی عزتِ نفس‘آیئے میں اس کھلونے کے ساتھ کھیلتے ہوئے چند منظر ناموں میں لئے چلتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ اس سفر میں آپ کو دل تھام کر خاموشی سے ان کو اپنی آنکھوں میں محفوط کرنا ہوگا۔
یہ ایک سائل ہے جو کئی گھنٹوں سے باہر کھڑے چپڑاسی کی جھڑکیاں کھاتا‘صاحب کے پی اے کی خوشامدیں کرتااور بعض اوقات ان کی مٹھی گرم کرکے بالآخر دفترمیں افسر کے سامنے کانپتے ہاتھوںسے درخواست آگے بڑھاتا ہے ۔صاحب قلم سے کچھ لکھنے لگتا ہے ‘اتنے میں وہ فریادی لہجے میںزبان کھولتا ہے تو صاحب کی غصے بھری آواز اس کا خون خشک کردیتی ہے ”تمہیں کس نے کہا بولنے کو‘میں نے پوچھنا ہوگا تو خود پوچھ لوں گا“درخواست پر ہلکے سے دستخط کرکے ایک طرف پھینک دی جاتی ہے۔سائل کچھ کہنے کےلئ

163727_176027485766318_100000772048335_361735_3068486_n.jpg


ے منہ کھولتا ہے تو پھر وہی گرجدار آواز سنائی دیتی ہے”بس اب جاو ‘جان چھوڑو“”لیکن سر آپ میری بات تو سنیں“میں نے پڑھ لیا ہے جو تم نے اس درخواست میں لکھا ہے“۔”صاحب!میں کہاں سے پتہ کروںکہ میرا کام ہوا ہے کہ نہیں؟“صاحب کے چہرے کا رنگ فوراً بدلتا ہے‘الٹے ہاتھ پر لگی ہوئی گھنٹی پر صاحب کی انگلی لگنے کی دیر ہے کہ چپڑاسی اندر داخل ہوتا ہے ‘صاحب کا مزاج آشنا ہے ‘وہ اس سائل کو بازو یا کندھے سے پکڑتا ہے اور یہ کہتا ہوا کہ آومیں بتاتا ہوں‘باہر لیجاتا ہے ۔باہر کی دنیا جہاں اس جیسے کئی اور سائل اسے اس ذلت اور رسوائی سے باہر آتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
دفتر کی ایک مخصوص ”گھنٹی“پر ایک کلرک فائلوں کا ایک انبارلئے ہوئے میز کی بائیں جانب ادب سے کھڑا ہوجاتا ہے۔سامنے خالی ٹرے میں تمام فائلوں کو ایک ترتیب سے رکھ کر صاحب کے اشارہ ابر پر ایک فائل کے کچھ صفحات دکھانے کی جرات کرتا ہے ‘کسی ایک صفحے پر صاحب کی آنکھ میں ذرا سی غصے کی چمک آتی ہے تو اس بیچارے کے ہاتھ تھرتھرانے لگتے ہیں‘محنت سے ترتیب دی ہوئی فائل ہاتھوں سے پھسل کر گراچاہتی ہے۔بڑی مشکل سے ضبط کرکے وہ فائل سنبھالتا ہے اور پھرصاحب کے سامنے اپنا کیا ہوا کام رکھنے لگتا ہے ۔ سامنے چند ایک معززین یا دوست بھی موجود جو کافی یا چائے سے لظف اندوز ہو رہے ہیں‘اچانک کاغذات کی ترتیب ‘فائل کی تھوڑی سی بے ہنگمی یا پھر کسی کاغذ کے چند سیکنڈڈھونڈنے پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے صاحب کو غصہ آتا ہے ‘عینک اتار کر میز پر پٹخ دی جاتی ہے ‘ہاتھوں میں پکڑی فائل ہوا میں لہراتی ہے اور کبھی کبھی سخت غصے میں ساتھ کھڑے شخص کے منہ پر مار دی جاتی ہے اور کبھی سامنے رکھی لمبی میز سے پھسلتی ہوئی قالین پر ورق ورق ہوجاتی ہے۔
خوف سے کانپتا ‘گالیاں سنتا‘اپنے مستقبل سے مایوس وہ اہلکار کاغذ سمیٹتا‘معافیاں مانگتااور آئندہ بہتر کام کرنے کا وعدہ کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن غصہ کم نہیں ہوتااور پھر ان سب لوگوں کے درمیان ذلت اور رسوائی کا داغ لیکر کمرے سے باہر نکل جاتا ہے ۔ایسے میں کبھی کوئی اس شخص کے دل کے اندر جھانک کر دیکھے تو اس میں ایک ہی خواہش ہوگی کہ اس کی آنکھوں کے کونوںمیں جوآنسو چھلک رہے ہیں دریا بن کر امڈ پڑیںاور وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے ‘کسی گوشہ تنہائی میں کسی ایسے شخص کے سامنے جو اس کا درد جانتا ہو ‘اسے شرمندہ نہ کرے اور وہ اس کے روبرو اپنا درد بیان کرسکے‘اپنا دکھڑا روسکے ‘اپنی ذلت کا مداوا کر سکے۔
یہ مناظر آپ کو ہر صاحبِ اختیار کے دفتر میں ملیں گے ۔یہ لوگ اپنے سے جونیئر افراد پر برستے ہیں‘غصے میں گرجتے ہیں‘انہیںکھڑے کھڑے یہ سب سننا پڑتا ہے اور کبھی بھری میٹنگ میں سب کے روبرو‘ایسے لمحوں میں کوئی نہیں سوچتا کہ اس کی آنکھوں میں جو ضبط کے آنسو ہیں‘اس کے ماتھے پر جو شرمندگی کا پسینہ ہے ‘یہ سب اسے کس ذلت سے دوچار کررہا ہے ۔اپنے ہی ساتھیوں کے سامنے اپنے ہی زیرِ سایہ کام کرنے والوں کے روبرو ‘یہ منظر صرف دفتر تک محدود نہیں ہیں‘اگر کبھی کسی افسر اعلیٰ کو دفتر سے باہر نکل کر چند سیکنڈکےلئے گاڑی کا انتظار کرنا پڑ جائے تو رات دن شٹل کی طرح کام کرنے والے ڈرائیور کی شامت آجاتی ہے ۔ہم کتنے نازک مزاج ہیں کہ دفتر سے نکلنے سے پہلے گھنٹی بجا کر اعلان کیا جاتا ہے ‘گاڑی لگواو۔گاڑی سٹارت ہوتی ہے اور پھر ہماری سواری دفترسے باہر نکلتی ہے۔میز پر چائے کا کپ غلط رکھنے والے کو ‘چائے اگر تھوڑی سے پرچ میں گر جائے اس پر‘باتھ روم میں تولیہ ڈھنگ سے نہ رکھا ہوا ہواس پر‘کسی کلب میں سروس دیر سے ہے اس کی پاداش میں ہم لوگوں کو سر عام ذلیل و رسوا کر دیتے ہیں اور پھر بڑے فخر سے گردن پھلا کر یہ اعلان کرتے ہیں اگر ان سے محبت سے پیش آو تو یہ سر چڑھ جاتے ہیں۔
یہ ذلت و رسوائی ہماری سڑکوںاور چوراہوںپر بھی اس قوم کے عام آدمی کا مقدر ہے ۔آپ کی گاڑی کے سامنے سے کوئی شہر کی اقدار سے نا آشنا بڑھیا یا بے ضرر بچہ گزرجائے تو گاڑی روک کر اسے گالیاں دی جاتی ہیںاور اگر بس چلے تو ذلت کی انتہاکےلئے دوچار تھپڑبھی رسید کر دیئے جاتے ہیں۔موٹر سائیکل پرسوارشخص خواہ اپنی بیٹی کے ساتھ ہو یا بیوی کے ساتھ‘ہم اس کی غلطی پر اسے معاف نہیں کرتے‘اسے بے عزت کرکے چھوڑتے ہیں۔آپ نے ٹانگے والے یا ساتھ بیٹھے ہوئے بیٹے کے سامنے ذلیل ہوتے رسوا ہوتے لوگوں کو دیکھا ہوگالیکن میڈیا کی آزادی کی وجہ سے ہم نے شائد پہلی مرتبہ ٹیلیویژن کی اسکرین پر پولیس کے ہاتھوںاس ملک کے عوام پرچھترول کے مناظردیکھے ہیںاور ہر آنکھ انسان کی ایسی تذلیل پر شرمسار ہے لیکن یہ تو جسمانی چھترول تھی لیکن پچھلے نوسال سے تمام صلیبی طاقتیں امریکا کی قیادت میں مسلمانوں کی غیرت و حمیت پر جو چھترول کر رہی ہیںاور اس میں ہمارے حکمران اس دستے کا کردار اداکر رہے ہیں جو چھتر کی دم میں پھنسا ہوا ہوتاہے اور یہ دستہ امریکا نے بڑی مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام رکھا ہے اور دوسری جانب حکومت کی طرف سے بدامنی‘مہنگائی اور بےروزگاری کی چھترول میں دن بدن شدت آتی جا رہی ہے اور عوام اب دونوں ہاتھ جوڑ کر اس حکومت سے پناہ مانگ رہے ہیں جس طرح چنیوٹ کا نوجوان چھترول کے دوران ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگ رہا تھالیکن حکومت شدت سے یہ کہہ رہی ہے کہ ابھی تمہیں مزیدڈھائی سال یہ چھترول برداشت کرنا ہوگی!
یہ ذلتو ں کے مارے اسی دنیا میں سانس لیتے ہیںاور ان کی عزتِ نفس مجروح کرنے والے بھی اسی دنیا میں‘لیکن ایک بات طے ہے کہ جب عام آدمی ذلیل و رسوا ہو تا ہے تو چند لوگوں کے دل ضرور خون کے آنسو روتے ہیں‘ان کی آنکھیں نم ہوتی ہیں لیکن تریسٹھ سالہ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی مغرور‘متکبراور لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے والی آفت و مصیبت آئی‘ایوانِ اقتدار سے رخصتی ہوئی، نوکری گئی‘گرفتاری ہوئی تو پھر کوئی آنکھ رونے والی نہیں تھی‘کوئی دل دھڑکنے والا نہیں تھا‘سب یوں آنکھیں پھیر گئے جیسے یہ تو اس کا مقدر تھا‘ایسا تو اس کے ساتھ بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا۔
یہ طارق بھائی کہاں سے چلے آئے!
کیاہے قتل انا کوخود اپنے ہاتھوں سے
یہ بات میرے لئے خودکشی سے مشکل تھی

http://www.vehariupdates.com/index....-18-03&catid=64:2010-06-01-05-12-17&Itemid=15
 
Top