طاہر عباس :: خود اپنی ذات میں اک کربلا تو میں بھی ہوں۔

رہِ طلب میں کہیں گم ہوا تو میں بھی ہوں
تری تلاش میں گھر سے چلا تو میں بھی ہوں

وہ قافلہ جسے منزل کی راہ تک نہ ملی
اسی کی ہمسفری میں چلا تو میں بھی ہوں

لہولہان ہوا ہوں میں دل کے مقتل میں
خود اپنی ذات میں اک کربلا تو میں بھی ہوں

اُڑا رہا ہوں تمسخر میں عاشقوں کا بہت
تمہارے عشق میں پر مبتلا تو میں بھی ہوں

بس ایک تم ہی نہیں ہو زوال کی زد پر
کہ آسماں سے زمیں پر گِرا تو میں بھی ہوں

نظر چُرا کے اسے دیکھتا ہوں محفل میں
بہت بُرا نہیں اتنا بُرا تو میں بھی ہوں

الگ یہ بات کہ میں لب کشا نہیں ہوتا
کرم پہ اس کے مگر سوچتا تو میں بھی ہوں

کسی چراغ پہ میرا بھی نام لکھ دینا
کہ اسکے ہجر میں طاہر جلا تو میں بھی ہوں
 
آخری تدوین:
Top