ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا

وقاص فاروق

محفلین
حمیدہ خاتون دکھ اور کرب کی مورت بنی بیٹھی ہیں. ہونٹ ہل رہے ہیں. بظاہر ان کی آنکھیں اشکبار ہیں. لیکن بغور دیکھئے، غم اور کرب کی طغیانی میں تلاطم خیز موجیں اٹھتی ہیں اور عظم و ہمت کی چٹانوں سے ٹکرا کر واپس پلٹ جاتی ہیں. منہ زور موجوں کے نمکین پانی سے کچھ چھینٹے رخسار پر آبشار بن کر بہہ ضرور رہے ہیں.

شائستہ بیگم، ایک جواں سال لڑکی، ہوش و حواس سے عاری دیوانہ وار دروازے کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے. چند عورتیں اسے دبوچنے کی کوشش کر رہی ہیں.

ایک بیس سال کا کڑیل، تیکھے نقوش والا، گورا چٹا، نوجوان اخبار پکڑے گھر میں داخل ہوتا ہے. اس کی نظر حمیدہ خاتون پر پڑتی ہے جو قرآنِ پاک کو غلاف میں ڈال رہی ہیں. وہ پرجوش انداز میں دادی جان دادی جان پکارتا بے اختیار ان سے چمٹ جاتا ہے. وہ اسے اتنا خوش دیکھ کر بلائیں لیتی ہیں. سلیمان ان کی استفساریہ نگاہیں بھانپ کر اخبار سامنے کر دیتا ہے. یہ دیکھیے آپ کے ہونہار نے گریجویشن کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی ہے. دادی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ جاتے ہیں. وہ اپنے لال کی پیشانی پر بوسہ دیتی ہیں. مالکِ کائنات کا شکر بجا لاتی ہیں اور ڈھیر ساری دعائیں دیتی ہیں. سلیمان پچھلے سولہ سالوں میں پہلی بار اپنی کل کائنات کو اتنا خوش دیکھ رہا ہے. چشم تصور میں سولہ سال پہلے کے واقعات اس کے سامنے گھوم جاتے ہیں.

آج اس کا سکول آنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا. لیکن ابا کے سامنے اس کی ایک نہ چلی. سکول کے دروازے پر رخصت کرتے وقت ابا نے بوسہ دیا اور پلٹ گئے. ایک لمحہ کو سلیمان کے دل میں ہوک کی طرح انجان جذبہ اٹھا کہ وہ دوڑ کا اپنے باپ سے لپٹ جائے. سکول کا بوڑھا چوکیدار اس کا ہاتھ تھام چکا تھا. اس نے خود کو ضعیف لیکن طاقتور گرفت سے چھڑانے کی کوشش نہ کی. چار و ناچار بوجھل قدموں کے ساتھ اپنی جماعت میں جا کر گم سم بیٹھ گیا ...... ابھی چھٹی میں دو گھنٹے باقی تھے کہ سکول کے ہیڈ ماسٹر اس کی جماعت میں داخل ہوئے. استاد کو ایک طرف لے جا کر کچھ کہا. پھر سلیمان کے پاس آئے اور شفقت سے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے. 'بیٹا آج آپ کا سکول آنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا تو آپ کو جلدی چھٹی دی جا رہی ہے. بابا قدوس (چوکیدار) آپ کو گھر چھوڑ آتے ہیں'. سلیمان حیرانی اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ چل پڑا.

دو گھنٹے پہلے چھٹی ملنے کی خوشی گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہی کافور ہو گئی اور اک غیر محسوس سے خوف میں بدل گئی. دروازے کے باہر محلے والوں کا رش ہے. گھر سے چند رونے پیٹنے کی بین کرتی آوازیں آ رہی ہیں. شائستہ بیگم کی دلدوز چیخیں محلے کے ان در و دیوار کو بھی ہلا رہی ہیں جنھوں نے کبھی اس کی پست آواز بھی نہ سنی تھی. سامنے والے رشید چچا نے آگے بڑھ کر ہاتھ تھاما اور اسے گھر کے دروازے تک لے گئے. سلیمان کو اپنے قدم من من بھر وزنی محسوس ہوئے. دروازے پر محلے کی کسی خاتون نے اسے اپنی گود میں اٹھایا اور اندر لے گئی.

صحن میں چٹائی بچھی ہے اور محلے بھر کی عورتیں بیٹھی ہیں. کوئی پنج سورۃ کی تلاوت میں مشغول ہے، کوئی تسبیح تھامے بیٹھی ہے تو کوئی رو رہی ہے. سلیمان کی نگاہیں اس اوپرے ماحول کا جائزہ لیتی ہوئی اپنی دادی پر جا کر ٹھہرتی ہیں جو ایک موڑھے پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی ہیں. اسی اثناء میں ماں کی دل خراش آواز اس کی نرم و نازک سماعت سے ٹکراتی ہے.

سچ پوچھو تو شائستہ بیگم ہوش کھو بیٹھی ہے. آنچل سے بے پرواہ کہرام مچا رکھا ہے. وہ غش کھا کھا کر گرتی ہیں اور لپک لپک کر دروازے کی طرف دوڑتی ہیں. عورتیں پکڑ پکڑ کر چارپائی پر لٹانے کی کوشش کرتی ہیں. وہ پوری قوت کے ساتھ چلا رہی ہے داؤد.... مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ..... داؤد.... مجھے ساتھ لے کر جاؤ ...... داؤد میں تمھارے بغیر کیسے جیؤں گی...... داؤدد د د...... سلیمان ماں کی یہ حالت دیکھ کر صدمے سے نڈھال ہو کر گر پڑتا ہے اور شاید بے ہوش ہو جاتا ہے.

داؤد، حمیدہ بیگم کی اکلوتی اولاد تھے. پچھلے مہینے ہی وہ پولیس کے محکمے میں ترقی پا کر پولیس انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے. اور آج ان کی لاش کے نام پر گھر میں فقط سرکاری بوٹ ہی لائے گئے. دھماکہ اتنا شدید تھا کہ موقع پر موجود تمام سرکاری اہلکاروں کے پرخچے اڑ گئے اور جسمانی اعضاء ریزہ ریزہ ہو کر پھیل گئے تھے. دکھیاری ماں کو آخری بار اپنے کلیجے کے ٹکڑے کا چہرہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہوا. وہی جگر گوشہ جو 25 سال پہلے ان کے بیوہ ہونے کے بعد جیتے رہنے کا واحد سبب تھا. جسے انھوں نے اپنے شوہر کی قلیل سرکاری پینشن میں زمانے کے بے رحم تھپیڑوں سے بچا بچا کر پال پوس کر بڑا کیا تھا. آج وہ سبب بھی چھن گیا. موڑھے پر بیٹھے بیٹھے انھیں محسوس ہوا کہ داؤد کی خاطر ضبط کی جو چٹانیں انھوں نے 25 سال پہلے کھڑی کیں تھیں آج دکھ اور کرب کی طوفانی منہ زور لہریں انھیں بہا لے جائیں گی. انھیں لگا جس آتش فشاں کو انھوں نے 25 سال دبا کر رکھا آج وہ ہر بندش توڑ کر آہ و بکا کا سارا لاوا اگل دے گا ...... وہ چلا چلا کر پوری کائنات کو ایک ماں کا دکھ سنانا چاہتی ہیں....... وہ چیخ چیخ کر ساری دنیا میں طوفان برپا کر دینا چاہتی ہیں. لیکن ان کی نظروں کے سامنے ننھے سلیمان کا چہرہ آ جاتا ہے اور وہ دل ہی دل میں 'ایاک نعبد و ایاک نستعین' کہہ پاتی ہیں...... رب کائنات کے سوا ہے ہی کون جو ایسی بے درد ساعت میں بھی پہاڑ جتنا حوصلہ عطا فرما دے....... اٹھ کر وضو کرتی ہیں، ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر کلمہ طیبہ کا ورد شروع کرتی ہیں اور عظم و ہمت کی چٹانوں کے کٹاؤ کو پاٹنا شروع کر دیتی ہیں. کہ انھیں پھر سے ایک بچے کو پال پوس کر جوان کرنا ہے. مرحوم بہن کی بیٹی شائستہ بیگم کی حالت دیکھ دیکھ کر ان کے دل کو چرکے لگ رہے ہیں لیکن وہ بے بس ہیں.

شائستہ بیگم کے لئے یہ حادثہ جان بلب ثابت ہوا. سانس رک رک کر آتی تار نفس قائم رکھنے کے لئے پورا وجود ہچکیاں لینے لگتا. پہلے دن تو وہ دیوانوں کی طرح چیختی چلاتی رہی، ماہی بے آب کی مانند تڑپتی مچلتی رہی. لیکن دوسرے دن ہوش و حواس سے بیگانہ، گم سم ہو گئی. جیسے کوئی حس کام نا کر رہی ہو. غم فرقت کی آکاس بیل نے اس کے دل و دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور چند ہی دنوں میں زندگی کا سارا رس چوس لیا. ہجر کے ساتویں دن اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ دار فانی سے دارالبقا کی طرف کوچ کر گئی.

بیٹا کہاں کھو گئے ہو.... دادی کی آواز سلیمان کو ماضی سے حال میں لے آئی..... سلیمان نے جیب سے لفافہ نکالا اور دادی کے سامنے کرتے ہوئے بولا. دادی اماں ایک اور خوشخبری بھی ہے یہ دیکھیں میں نے 'اینٹی ٹیررزم فورس' کے لئے امتحان اور انٹرویو دیا تھا. ان کی طرف سے ٹریننگ کا خط بھی آ گیا ہے. اب میں اپنے بابا کے قاتلوں سے ضرور بدلہ لوں گا....... نجانے کیوں یہ الفاظ سن کر حمیدہ خاتون بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگیں. ایسے لگ رہا ہے کہ 45 سال سے قائم ضبط کے بند ٹوٹ گئے ہیں اور آنسوؤں کا سیلاب آنکھوں کے راستے بہہ رہا ہے. وہ اٹھی اور کمرے میں چلی گئیں. سلیمان کچھ گھبرا گیا. وہ ان کو دلاسہ دینے کی کوشش بھی نہ کر پایا. کچھ دیر بعد وہ سینے سے اپنے شہید بیٹے کے بوٹ لگائے باہر نکلیں. وہ زاروقطار روئے جا رہی تھیں. جیسے اتنے برسوں بعد انھیں اپنا غم ہلکا کرنے کی اجازت مل گئی ہو. سلیمان کو لگا جیسے گھر کے در و دیوار بھی گریہ کر رہے ہیں. وہ درو دیوار جنھوں نے 45 سال کبھی ان کی سسکیوں کی آواز بھی نہ سنی ہو شاید.
 
Top