صوفیانہ کلام

سیما علی

لائبریرین
اللہ ترا عام جو انعام ہو گیا
جاری مری زباں پر ترا نام ہو گیا

کر اس کی جستجو وہ ملے گا تجھے ضرور
کوشش جو تو نے کی تو ترا کام ہو گیا

شاہ امین احمد فردوسی

 

سیما علی

لائبریرین
فضائے قدس میں حیرت کا وہ دلکش سماں ہو گا
کہ بندہ میہماں معبود برحق میزباں ہو گا

سر مقتل شہیدانِ وفا کا امتحاں ہو گا
تو یہ ہوگا کہ قاتل تیرا دامن خوں فشاں ہو گا

گلے مل مل کے اس نے حسرتیں دل کی نکالی ہیں
تمہارا جانفشاں خنجر ابھی تک خوں فشاں ہو گا

ترا خنجر شہادت دے گا محشر میں شہیدوں کی
یہی ان کا بیاں ہوگا یہی ان کی زبان ہو گا

ثریا مرقدِ محبوب حق کی شمع روشن ہے
تجھے یہ مرتبہ حاصل کہاں اے کہکشاں ہو گا

نظر بازوں سے تیور چھپ نہیں سکتے نگاہوں کے
اشارے جس سے ہوتے ہیں وہ بیشک رازداں ہو گا

بتوں کا عشق بھی، خوف خدا بھی, دل میں ہے محسنؔ
ہمارا مقبرہ دیر و حرم کے درمیاں ہوگا

شاہ محسن داناپوری​

 

سیما علی

لائبریرین
چار تنکوں کا سہارا کچھ نہیں
صحن‌ گلشن میں ہمارا کچھ نہیں

چین لوٹا دل مرا ویراں کیا
بس بگاڑا ہے سنوارا کچھ نہیں

جان دینے کے لیے حاضر ہیں ہم
عاشقی میں یہ خسارا کچھ نہیں

بے وفائی بھی ترا احسان ہے
اس سے بڑھ کر حق ہمارا کچھ نہیں

جستجو ایماں تن آسانی گناہ
موج سب کچھ ہے کنارا کچھ نہیں

ہم سے دل لے کر یہ ظالم نے کہا
جاؤ رستہ لو تمہارا کچھ نہیں

اک نگاہ لطف ہم پر بھی کبھی
عرض ہے اپنی اجارا کچھ نہیں

سارے عالم میں وہی وہ ہیں نصیرؔ
سب کچھ ان کا ہے ہمارا کچھ نہیں

پیر نصیرالدین نصیرؔ

 
Top