صرف سو (100) دن بعد...چوراہا ۔۔۔۔حسن نثار (جیوے جوڑی شیراں دی)

زرقا مفتی

محفلین
چلو ڈرون حملے تو امریکہ کبھی نہ کبھی بند کر ہی دے گا لیکن یہ ڈالر کا ڈرون حملہ کب رکے گا کہ ڈار اور ڈالر کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اور جن کے پاس ڈالروں کے انبار ہوں، ان کے ہوتے ہوئے ڈالر رک نہیں پائے گا بلکہ بلٹ ٹرین جیسی رفتار کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔ قدم بڑھائو ڈالر شریف! ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
عوام کو اندازہ نہیں کہ ڈالر کا حملہ ڈرون کے حملے سے زیادہ بلکہ کہیں زیادہ خطرناک اور جان لیوا ہوتا ہے۔ ڈرون بڑھتا ہے تو اس ’’معصوم ‘‘ کا ٹارگٹ مخصوص اور بیحد محدود ہوتا ہے جبکہ ڈالر کا حملہ ہو تو تباہی لامحدود ہوتی ہے، روپیہ گرتا ہے تو چند وارداتیوں کو چھوڑ کرکرڑوں عوام اس کے ساتھ منہ کے بل گرتے ہیں اور اپنی ان بتیسیوں سے محروم ہوجاتے ہیں جنہیں نکال نکال کر نعرے لگایا کرتے تھے۔
’’دیکھو دیکھو کون آیا
ڈالر آیا ڈالر آیا‘‘
روپیہ جتنا سستا ہوتا ہے، عوام اس سے کہیں زیادہ سستے ہوجاتے ہیں اور ان کی آئندہ نسلوں پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ ماشاء اللہ انٹر بینک میں ڈالر تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر جا پہنچا اور ڈالر اوپن مارکیٹ میں 106روپے کا ہوگیا ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ابھی تو صرف سو دن ہی پورے ہوئے ہیں جس دن اس حکومت نے ٹیک اوور کیا تو یاد ہے میں نے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا تھا……’’بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں نوٹ کرلو اور پھر چھ ماہ بعد کی قیمتوں کے ساتھ ان کا موازنہ کرنا اور پھر دیکھنا تم اپنے ساتھ کیا کربیٹھے ہو‘‘ چھ ماہ پورے ہونے دو، سارے ارمان پورے ہوجائیں گے۔ میں مسلسل زخم کریدتا اور ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہوں گا تاکہ یادداشت کی کمزوری آڑے نہ آئے اور شاید اگلی بار ہی عقل آجائے۔
ایک پیشنگوئی اور بھی کی تھی کہ نئی حکومت کے چھ ماہ پورے ہونے پر عوام کی چیخیں مریخ پر سنائی دیں گی۔’’راگ چیخ چنگھاڑ‘‘ میرے اندازوں سے بہت پہلے شروع ہوچکا۔ میں اس ملک میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا پرچارک ہوں لیکن خود ٹیکنالوجی شائی آدمی ہوں اس لئے نیٹ وغیرہ کی دنیا سے ذرا دور دور رہتا ہوں لیکن بھلا ہو میرے قارئین اور’’میرے مطابق‘‘ کی ٹیم کا کہ تھوڑا بہت باخبر رکھتے ہیں۔ نیٹ پر چلنے والی اک مقبول عام نظم مجھے بھجوائی گئی ہے، شاعر کا نام درج نہیں کہ اس کے بغیر بات نہیں بنتی لیکن جس نے بھی لکھا، خوب لکھا ہے کہ نثر میں یہی سب کچھ زبان زد عام ہے۔ عوام پہلے’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ پی پی پی برانڈ بھگت رہے تھے اب ن لیگ برانڈ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بعد نمبو نچوڑ کر لطف اندوز ہورہا ہے ۔نظم کا عنوان ہے۔
’’جیوے جوڑی شیراں دی‘‘ ملاحظہ فرمائیے
کہندے سن خوشحالی آسی
ہر مکھڑے تے لالی آسی
رونق اڑ گئی چہراں دی
جیوے جوڑی شیراں دی
ٹیکس روزانہ تنی جاندے
گنجیاں نوں وی منی جاندے
جرات دیکھ دلیراں دی
جیوے جوڑی شیراں دی
ڈیزل تے پٹرول وی مہنگے
آٹا، چینی، چول وی مہنگے
ماچس ہوگئی تیراں دی
جیوے جوڑی شیراں دی
کھنڈ لیاواں، گھیو مک جاوے
ویکھ مہنگائی ساہ سک جاوے
ہانڈی چاہڑاں بیراں دی
جیوے جوڑی شیراں دی
گیساں کونی، بتی کونی
فکر انیہاں نوں رتی کونی
شاہی گھپ ہنیراں دی
جیوے جوڑی شیراں دی‘‘
حالات حاضرہ پر لکھی گئی اس شاہکار نظم کا فری سٹائل اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں، کچھ نہ کچھ تو پلے پڑہی جائے گا۔
’’کہتے تھے خوشحالی لائیں گے ،ہر چہرے پہ لالی ہوگی لیکن انہوں نے تو چہروں کی رونق ہی چھین لی ہے۔ واہ کیا جوڑی ہے شیروں کی جو ہر روز نت نیا ٹیکس ٹھونسے جارہے ہیں اور بیچارے گنجوں کو بھی مونڈنے سے باز نہیں آرہے ہیں۔ کیا دیدہ دلیری ہے کہ ڈیزل اور پٹرول ہی نہیں ہر روز آٹا اور چینی چاول بھی مہنگے ہورہے ہیں۔ ماچس تیرہ (13)روپے کی ہوچکی۔ شیروں کی جوڑی سلامت رہے کہ چینی لے کر آتا ہوں تو گھی ختم ہوجاتا ہے۔ مہنگائی دیکھ کر سانسیں سوکھ رہی ہیں۔ اب تو ایک ہی صورت ہے کہ بیروں کی ہنڈیا چڑھا دو ،نہ کہیں گیس ہے نہ بتی بجلی لیکن انہیں رتی برابر فکر نہیں اور اب اس ملک پر گھپ اندھیروں کی حکمرانی ہے‘‘
قارئین!
اس اجتماعی آپ بیتی میں ایک خطرناک سی غلطی ہے۔ عوامی شاعر نے مہنگائی کا ماتم کرتے ہوئے مہنگی سبزیوں کی بجائے بیروں کی ہنڈیا پکانے کی بات کی ہے تو یاد رہے کہ آج کل بیر بیشتر سبزیوں سے بھی مہنگے ہیں۔ وہ وقت گزر گئے جب بیر، تربوز، خربوزہ اور جامن وغیرہ کو پھل کہلانے کا اعزاز حاصل نہیں تھا لیکن اب تو یہ کمی کمین بھی وی وی آئی پی(VVIP)پھل سمجھے جانے لگے ہیں اور شہتوت جیسا سنڈی نما پھل بھی آم، سیب، انگور، الیچی وغیرہ کو آنکھیں دکھانے لگا ہے۔
صرف100دن بعد نظمیں شروع تو اندازہ لگائیں مزید 100دن بعد کیا ہوگا؟18کروڑ چلتے پھرتے نوحے اور پھر……’’ہم تم ہوں گے ساون ہوگا، رقص میں سارا جنگل ہوگا۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=130283
 
Top