صدر مشرف کا بزنس کمیونٹی سے خطاب

فہیم

لائبریرین
گزشتہ روز کراچی میں سٹی ناظم سید مصطفی کمال، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور صدر پرویز مشرف نے بزنس کمیونٹی سے خطاب کیا۔

صدر مشرف کا خطاب --- بحوالہ جنگ

صدر پرویز مشرف نے کہا ہے اگر میرے ہٹنے سے مسائل حل ہوتے ہیں تو میں ایک دن بھی صدر نہیں رہونگا،ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ فوج نہیں جو مجھے چھوڑ جائے، یہ وہ فوج ہے جس نے میری بانہوں میں جان دی۔کراچی میں بزنس کمیونٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے اس فوج کے ساتھ جنگیں لڑی ہیں یہ میرے اپنے لوگ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایوان صدر میں نظر بند کرنے کی افواہیں پھیلائی گئیں،میری حمایت ہمیشہ حکومت کو حاصل رہیں گی۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی ملک میں واپس لانا ہوگا۔ملکی مفاد میں احتجاجی سیاست سے گریز کرنا ہوگا۔سیاسی بحران انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے۔میرے پاس امریکا میں گھر بنانے کے پیسے نہیں ہیں۔میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے اس ملک کو نہیں چھوڑوں گا۔میری دعا ہے کہ ہماری آزادی برقرار رہے۔موجودہ حکمران ملک کو بحرانوں سے نکالیں۔انہوں نے کہا کہ ملکی عوام باصلاحیت ہے تاہم لیڈر شپ کی کمی ہے۔صدر پرویز کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج میرے خلاف باتیں کرنے والے دو چمچے ہیں میں چاہتا تو انہیں کف گیر بنا سکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ چند ماہ سے دانستہ طور پرخاموش تھا، کسی سے ڈرتا نہیں ہوں،فوج میں رہا ہوں ،میری تربیت دفاعی نہیں جارحانہ ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک بحرانی دور سے گزر رہے ،صورتحال بہت سنگین ہے،ملک کو انتہا پسندی، معاشی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے،ملک و قوم کی بات ہو تو ذات سے بالاتر ہوکر کام کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بطور پاکستانی پاکستان کو بچانا میری ذمہ داری ہے ،سب سے پہلے پاکستان پر عمل کرنا ہوگا۔صدر مشرف کا مزید کہنا تھا کہ فاٹامیں غیر ملکی جنگجو اور مسلح طالبان بیٹھے ہیں جو ملک میں اور افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے میری پالیسیوں پر ہی عملدر آمد جاری رکھاہواہے، طالبانائزیشن کو شہری علاقوں میں پھیلنے سے روکا نہیں گیا تو پورے ملک میں لال مسجدیں نظر آنا شروع ہوجائیں گی۔صدر پرویزکا کہان تھاانتخابات میں صوبہ سرحد میں اعتدال پسندوں کومنتخب کیا گیااور انتہاپسندوں کومسترد کردیا گیا ہے جو خوش آئند ہے،معاشرے میں انتہاپسندی اور عدم برداشت کو روکنا ہوگا۔انتہا پسندی کو نہیں روکا گیا تو یہ ملک کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔صدر نے کہا کہ بلوچستان میں علیحدگی پسندگی کی تحریکیں بڑھ رہی ہیں جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس کا صرف طاقت سے ہی مقابلہ کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے،قوم کے رہ نماؤں میں لوگوں کی بات سننے کا بھی حوصلہ ہونا چاہیے،ہم مسلمان ہیں کسی کو ہمیں مزید مسلمان بنانے کی ضرورت نہیں۔صدرمشرف نے کہا کہ1947ء میں پاکستان کو بزنس کمیونٹی نے بچایا اب بھی بزنس کمیونٹی کو ملک کو بچانا ہوگا۔ملک میں اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔اس وقت ہمیں بجٹ خسارے کا مسئلہ ہے، ہمارے اخراجات بڑھے ہیں،اب ہمیں اپنی آمدن بھی بڑھانا ہوگی۔
 
سب سے مزے کی بات مصطفی کمال کے ریمارکس تھے جو بدتہذیب نےڈاکٹر عبدلقدیر اور دوسرے رہ نماوں کے بارے میں دیے ۔ مینڈکی کو بھی زکام ہورہا ہے۔۔
 

فہیم

لائبریرین
مصطفی کمال نے آخر میں یہ بات بھی کہی تھی کہ اگر یہ جو کچھ میں نے کہا وہ دل سے کہا ہے۔
اگر مجھے صرف لوگوں کو سنانے کو تقریر کرنی ہوتی تو میں تہذیب کے دائرے میں رہ کر تقریر کرتا

اس کے ڈاکٹر عبدالقدیر کے بارے میں تو میں‌ نے ریمارکس نہیں سنے
البتہ یہ ضرور سنا کہ
اب وہ ڈنر اپنی فیملی کے ساتھ کرتا ہے اور ہفتے میں ایک دفعہ کرکٹ بھی کھیلتا ہے۔

مجھے بتائیں گے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟
 
مصطفی کمال جب ہذیان بک رہا تھا تو لگ رہا تھا کہ لالوکھیت کسی تھڑے کی میٹنگ سے خطاب کررہا ہے۔ متحدہ کے لوگوں سے کسی تہذیب کی امید ہے کیا؟
 

فہیم

لائبریرین
مصطفی کمال جب ہذیان بک رہا تھا تو لگ رہا تھا کہ لالوکھیت کسی تھڑے کی میٹنگ سے خطاب کررہا ہے۔ متحدہ کے لوگوں سے کسی تہذیب کی امید ہے کیا؟

بہتر ہوتا کہ آپ نے انداز کے بجائے الفاظ پر غور کیا ہوتا۔
لیکن الفاظ پر غور کہاں کیا جاتا ہے۔

اگر بات انداز کی ہے تو پھر تو آصف زرداری کے چھچھورانہ انداز کی پریس کانفریسیں بھی کافی ہیں
 
متحدہ کو اب مصطفی کمال سے ہی اظہار لاتعلقی کرنا پڑے گا۔ ویسے متحدہ بھی عجیب ہے کبھی اس کا لیڈر ہی متحدہ سے لاتعلقی اخیتار کرتا ہے کبھی متحدہ اپنے ناظم سے۔
 
Top