شہزادہ حضور کا عزم

یوسف-2

محفلین
بہت انتظار تھا کہ ولی عہد بلاول کی ’’لانچنگ سیریمنی‘‘ کیسی ہوگی۔ سو وہ ہوگئی اوراچھی ہوگئی۔ گڑھی خدا بخش کے لانچنگ پیڈ پر بہت لوگ جمع تھے لیکن قائم علی شاہ کی پیش گوئی پوری نہیں ہو سکی۔ پوری کیا، ادھوری بھی نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا تھا لانچنگ سیریمنی حیدرآباد میں پگاڑا کے جلسے کا جواب ہوگی۔ یعنی اس سے بھی بڑی ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں آئے، لیکن لاکھوں کی تعداد میں نہیں۔ گڑھی خدا بخش کا جلسہ حیدرآباد کے آدھے کیا، پانچویں حصے کے برابر بھی نہیں ہو سکا۔ ایسے چارپانچ جلسے اور ہوں گے تب حیدرآباد والے جلسے کے برابر بنیں گے۔ پارٹی کے روایتی جلسوں کا جوش و خروش رسم تاجپوشی میں پتہ نہیں کیوں لاپتہ تھا۔ نعروں کا جواب کسی مایوس بوڑھے کے دل کی دھڑکن کی طرح مدھم تھا۔
بہرحال، ولی عہد کو ’’لانچ‘‘ کر دیا گیا۔ شروع میں سمجھ نہیں آئی کہ تقریر اُردو میں ہے یا انگلش میں اور انگلش ہے تو کون سی، برٹش یا امریکن لیکن پتہ چلا کہ یہ اُردو ہے، زردارین اردو۔ یعنی کہ بڑی ہی بھارین اردو۔ یہ جو جمہوریت آئے ہیں، یہ ہم نے کرائے ہیں ہمارے خون کھول رہیں ہے لیکن ہم خاموش رہیں ہے۔
ولی عہد نے اپنی لانچنگ کا آغاز روٹی، کپڑے اور مکان کے وعدے سے کیا۔وہی جو1969ء میں کیا گیاتھا یعنی پھر صفر سے شروعات۔ صفرسے شروعات والا لطیفہ یاد ہوگا۔ کسی تھانیدار نے ملزم سے کہا، تمہیں سو جوتے ماروں گا ۔ تم بس گنتے جانا! ملزم کا کیازور تھا۔ جوتے کھاتا گیا اور گنتا گیا،80جوتے کھا چکا تو کمر جواب دے گئی۔ اور کچھ نہ سوجھاتو 80کے بعد81 کہنے کے بجائے85کہہ دیا اور85کے بعد90 پھر95کہا۔ مقصد تھا کہ سو کی گنتی اس طرح پوری ہو جائے اور زیادہ نہیں تو پندرہ سولہ جوتوں کی رعایت تو ہو ہی جائے۔ تھانیدار بھی ایک ہی کایاں تھا۔جوتا روکے بغیر کہا، تم گنتی بھول گئے ہو۔ ملزم نے کہا نہیں، صحیح گنتی کر رہا ہوں۔ تھانیدار نے کہا نہیں تم نے سب گڑ بڑ کر دیا ہے۔ میں پھر سے شروع کرتا ہوں۔
ولی عہد نے بھی قوم کو پھر سے شروع کرنے کی ’’خوشخبری‘‘ سنائی ہے۔ لیکن پھر سے شروع کرنے کیلئے کمر بھی تو ہونی چاہئے وہ تو رہی نہیں۔ روٹی کپڑا، مکان سب چھین لیا، بجلی غائب کر دی، پٹرول پی گئے، گیس ساری خود بھر لی، کھاد تک ہڑپ کر گئے، ٹرینیں بند کر دیں،جہاز کھٹارے کر دیئے،حاجیوں تک کی جیبیں خالی کر دیں۔ اب خالی کرانے کے لئے کیا رہ گیا ہے ولی عہد صاحب کہ پھر سے شروع کریں گے؟
______________________
ولی عہد کے ہاتھ میں چابک ہوتا تو وہ چیف جسٹس کی تصویر سامنے رکھ کر چابک بازی کے شاہانہ فن کا شاہانہ مظاہرہ کرتے لیکن چابک نہیں تھا، تصویر بھی نہیں تھی لیکن خیال کی دنیا تو جیسے چاہو بسا لو۔ چیف جسٹس کی خیالی تصویر سامنے رکھی اور الفاظ کے وہ چابک برسائے کہ بس! کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ ولی عہد کی زبان میں خود بادشاہ بول رہا تھا جو بات خود نہیں کہنا چاہتا تھا، ولی عہد کی زبان سے کہلوا دی۔ بہرحال، ولی عہد نے کہا، ان کو سی این جی کے ریٹ تو یاد ہیں یہ یاد نہیں کہ بھٹو کیس بھی سننا ہے۔
سی این جی کا کیس چھیڑ کر واقعی چیف جسٹس نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ لوگ تو ایک روپیہ نہیں چھوڑتے۔ شاہی خاندان اپنے اور اپنے درباریوں کے اربوں کھربوں سے کیسے دستبردار ہو۔ دکھتی رگ دبانے پر ولی عہد کا غصّہ برحق تھا۔ البتہ بھٹو کیس نہ سننے کی بات سمجھ میں نہیں آئی۔
اس کیس میں شاہی خاندان کے وکیل بابر اعوان تھے جو کئی ماہ ہوئے شاہی جنّت سے نکالے جا چکے۔ اب اس کیس کا کوئی وکیل ہی نہیں عدالت کیا کرے؟ بس شہزادہ حضور کی چابک بازی سہے اور کیا کرے۔
پھر فرمایا بے نظیر کے قاتل کیوں نہیں پکڑے جاتے۔
کیسے بادشاہ ہو شہزادے میاں، دوسروں سے پوچھتے پھرتے ہو قاتل کیوں نہیں پکڑتے۔
شہزادہ صاحب نے یہ بھی کہا ، میں بھٹو کا وارث ہوں۔ جی نہیں شہزادہ حضور، آپ زربادشاہ کے وارث ہیں۔ بھٹو کا وارث تو ذوالفقار جونیئر ہے۔ کم از کم اسے تو ’’جمہوری انتقام‘‘ سے استثنیٰ دے دیں۔ (عبداللہ طارق سہیل کا کالم۔ نئی بات۔ 29 دسمبر 2012 ء)
 

محمداحمد

لائبریرین
کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا۔

بلاول نے اپنے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ تو لگا ہی لیا ۔ کیا ضروری تھا کہ بے نظیر کی ٹوٹی پھوٹی اردو کا تلفظ بھی من و عن اپنا لیا جائے؟

لعنت ہے موروثی سیاست پر۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
پاکستان پیپلز پارٹی صحیح معنوں میں روایتی سیاست کر رہی ہے ۔۔۔ بلاول بھٹو کی "لانچنگ سیریمنی" کی "ٹائمنگ" معنی خیز ہے ۔۔۔ امکان یہی ہے کہ سندھ کے عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گی ۔۔۔
 

شیزان

لائبریرین
عبداللہ طارق سہیل کے ہم اسی لئے فین ہیں کہ ہلکے پھلکے انداز سے بڑی سے بڑی بات کر جاتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
تقریر کریں اور کھسکیں از سید طلعت حسین​
talat-28-12-12-580x526.jpg
 
Top