فارسی شاعری شہابِ طلائی - سیمین بہبہانی (با ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
(شهابِ طلایی)
همچون نسیم بر تن و جانم وزید و رفت
ما را چو گل دمی به سوی خود کشید و رفت
بر دفترِ خیالِ پریشانِ من شبی
با کلکِ عشق، خطِ تمنا کشید و رفت
در آسمانِ خاطرم آن اخترِ امید
دردا که چون شهابِ طلایی دوید و رفت
برگو، خدای را، به دیارِ که می‌دمد
آ‌ن صبحِ کاذبی که به شامم دمید و رفت
یادِ شکیب‌سوزِ تو، ای آشنا، شبی
در موجِ عطرِ بسترِ من آرمید و رفت
در آفتابِ لطفِ تو تا دیگری نشست
چون سایه عاشقِ تو به کنجی خزید و رفت
ترسم چو بازآیی و پرسم ز عشقِ خویش
گویی چو شورِ مستی‌ام از سر پرید و رفت
سیمین! اگرچه رفت و تو تنها شدی ولیک
این بس که در دلت شرری آفرید و رفت
(سیمین بهبهانی)


ترجمہ:
وہ بادِ نسیم کی مانند میرے تن و جاں پر وزیدا اور چلا گیا؛ اُس نے ہمیں گُل کی طرح ایک لمحہ اپنی جانب کھینچا اور چلا گیا۔
میرے خیالِ پریشان کے دفتر پر ایک شب اُس نے کلکِ عشق سے خطِ تمنا کھینچا اور چلا گیا۔
دردا کہ وہ اخترِ امید میرے ذہن کے آسمان پر طلائی شہاب کی مانند دوڑا اور چلا گیا۔
خدا را بتاؤ کہ وہ صبح کاذب کس کے دیار میں طلوع ہوتی ہے جو میری شام میں طلوع ہوئی اور چلی گئی۔
اے آشنا، تمہاری صبرسوز یاد نے ایک شب میرے بستر کے عطر کی موج میں آرام کیا اور چلی گئی۔
تمہارے لطف کی دھوپ میں جیسے ہی کوئی دیگر بیٹھا، عاشق سائے کی طرح ایک گوشے کی طرف رینگا اور چلا گیا۔
میں ڈرتی ہوں کہ جب تم دوبارہ آؤ گے اور میں اپنے عشق کے بارے میں پوچھوں گی تو تم کہو گے کہ وہ شورِ مستی کی مانند میرے سر سے اڑا اور چلا گیا۔
اے سیمیں! اگرچہ وہ چلا گیا اور تم تنہا ہو گئی لیکن یہی کافی ہے کہ اُس نے تمہارے دل میں ایک شرر پیدا کیا اور چلا گیا۔

× وَزِیدنا = ہوا کا حرکت کرنا
 
آخری تدوین:
Top