شکر ہے ہر گھر سے بھٹو تو نکلا۔۔۔!

شکر ہے ہر گھر سے بھٹو تو نکلا
صحافی | مکتوب امریکہ…طیبہ ضیا
17 مئی 2013 (نوائے وقت) لنک

ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔۔۔اور خدا کا شکر ہے کہ گیارہ مئی 2013کو پاکستان کے ہر گھر سے بھٹو نکل گیا ۔تحریک انصاف ناراض ہے کہ اس نے تبدیلی کے لئے ووٹ دیا مگر تبدیلی نہیں آئی حالانکہ اس سے بڑی تبدیلی اور کیا ہو گی کہ تحریک انصاف نے بھٹو کی جگہ لے لی اورخود کو ایک بڑی پارٹی کے طور پر منوا لیا ۔ الیکشن میں دو معرکے سر زد ہوئے ،بیگمات کو ووٹ کے لئے گھروں سے نکالنا اور بھٹو کا ہر گھر سے نکل جانا۔جہاں تک دھاندلی کا مسلہ ہے تو اس کا حل امریکہ کے پاس بھی نہیں البتہ امریکہ کا الیکشن الزام تراشی سے شروع ہوتا ہے اور مبارکبادپر ختم ہوجاتا ہے جبکہ پاکستان میں الیکشن الزام تراشی سے شروع ہوتا ہے اور مارشل لاءپر ختم ہوجاتا ہے۔دھاندلی بھی ”لفٹر“ جیسی ہوتی ہے،بظاہر حادثہ دکھائی دیتی ہے مگر پیٹھ پیچھے چھُرا گھونپ جاتی ہے ۔تحریک انصاف کا بھی کیا کہنا،ما شا ءاللہ ! ”دھکا“دے دیا جائے تو حادثہ ، شکست ہو جائے تو دھاندلی ؟شیخ رشید کی کامیابی کو دھاندلی سمجھاجائے یا ”حادثہ“۔۔۔ ؟

تحریک انصاف کے اپنے لوگ شفقت محمود کے جلسے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں،ناقص لفٹر کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں مگر سچ بولنے کی جرات نہیں رکھتے ۔ حیرت ہے دھاندلی کے خلاف دھرنے دینے والوں نے اپنے لیڈر کے گرائے جانے کے خلاف ایک بھی دھرنا نہیں دیا ۔جس مجاہد نے اپنی زندگی کے سترہ برس پارٹی کو دے دئے اورجب اقتدار کا وقت آیا تو اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا۔قوم کو سجدہ شکر ادا کرنا چاہئے کہ خدا نے کپتان کو بچا لیا۔بھٹو کو مار دیا گیا لیکن ہر گھر سے بھٹو نکلا ۔عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے لوگ پہلی بار ووٹ کے لئے گھروں سے نکلے ہیں ،اگر انصاف نہ ملا تو ان لوگوں کا الیکشن سے اعتبار اٹھ جائے گا۔جب یہ لوگ نہیں تھے تب بھی الیکشن ہوا کرتے تھے اور اگر یہ لوگ نہیں نکلیں گے تب بھی الیکشن ہوا کریں گے ۔حالیہ سروے کے مطابق ووٹرز کی بڑی تعداد ان علاقوں سے نکلی ہے جن کی سوچ میڈیا اور انٹرنیٹ بھی تبدیل نہیں کر سکا۔الیکشن سے دو روز قبل امریکہ میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ عمران خان پڑھے لکھے طبقے کے وزیر اعظم ہیں،غریبوں کا وزیر اعظم بننے کے لئے ابھی انہیں بہت کام کرنا ہے۔پانچ سال پہلے وقت چینل کے لئے عمران خان کا ایک انٹرویو کیا تھا جو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے ،اس میں عمران خان کو یہی مشورہ دیا تھا کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح انہیں روٹس میں جانے کی ضرورت ہے۔ٹی وی مہم وہاں اثر انداز ہوتی ہے جہاں پہلے سے ذہن بن چکے ہوں،آپ کو ”اپر کلاس“ کا لیڈر سمجھا جاتا ہے لہذا آپ کو پرانے پاکستان کی نفسیات سمجھنے کے لئے دیہی علاقوں میں بہت محنت کی ضرورت ہے۔عمران خان وزیر اعظم ہوتے تو بے حد خوشی ہوتی مگر ان کی دوسری زندگی پر ہمیں جس قدر خوشی ہوئی ہے اس کے سامنے وزارت عظمیٰ بہت معمولی عہدہ ہے۔ دھرنوں کو مزید طول دیا گیا تو ملک میں وہ تبدیلی آئے گی کہ عمران خان اگلی بار بھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔ ہر جرنیل اشفاق پرویز کیانی کی طرح غیر سیاسی نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر آنے والا چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری ہو گا۔جو لوگ جیت گئے ،وہ الیکشن کمیشن پر خوش اور جو ہار گئے ان کے نزدیک ملک کے تمام ادارے ”بکاﺅ“۔شفقت محمود اور حامد خان کے حالات مختلف ہیں۔ویسے بھی شفقت محمود کامیابی کے نشے میں ”لفٹر“ کا حادثہ بھول چکے ہیں۔عمران خان کی زندگی کے ساتھ ناقابل تلافی دھاندلی ہوئی ہے ۔لیڈر کا لفٹر سے گرنا حادثہ نہیں البتہ کلین سویپ کرنے کو حادثہ سمجھا جانا تھا۔ہم مسلسل لکھ رہے تھے کہ تبدیلی آئے گی اور تحریک انصاف کو کامیابی بھی حاصل ہو گی مگر یہ الیکشن کلین سویپ نہیں ہو ں گے اوران خیالات کا کئی بار خان صاحب سے بھی اظہار کر چکے ہیں ۔ایک ملاقات میں خان صاحب سے کہا تھاکہ آپ نواز شریف کے خلاف بہت سخت زبان استعمال کرتے ہیں جبکہ آصف علی زرداری کے لئے شریفانہ لہجہ رکھتے ہیں تو خان صاحب نے جواب دیا تھا کہ ان کے نزدیک نواز شریف ، زرداری سے زیادہ خطرناک ہیں۔ خان صاحب یہ سب کچھ پنجاب سے ووٹ لینے کے لئے کر رہے تھے۔اب جبکہ الیکشن کا مرحلہ گزر گیا اور تمام پروپیگنڈا کے باوجود خان صاحب مسلم لیگ نون کی کمر نہیں توڑ سکے، امید ہے لہجہ میں تبدیلی آئے گی۔عمران خان کی میڈیکل حالت کو مخفی رکھا جا رہا ہے،خدا کرے ہمارا وہم غلط ثابت ہو۔دھرنے والوں سے گزارش ہے کہ ہاتھوں میں بلے ہی نہیںتسبیح بھی تھام لیں اور ہوا میں بلا لہرانے کی بجائے لیڈر کی مکمل شفایابی کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں۔بلے سے پھینٹی بھی لگائی جا سکتی ہے مگر اچھا ہوتااگر بلا صرف کھیل کے لئے استعمال کیا جاتا۔صوفی کی زبان سے ادا ہونے والا ہر جملہ تولا جاتا ہے۔ معمولی متکبرانہ جملہ بھی اس کے لئے آزمائش بن جاتا ہے۔کچھ معاملات روحانی ہوتے ہیں، انہیں سیاست کی زبان میں نہیں سمجھایا جا سکتا۔ عمران خان کی زندگی پر کئی وزارت عظمیٰ قربان ۔خان نے جس پارٹی کو سترہ سال لہو پلایا ،اس کے ساتھیوں نے اسے کیش کرا لیا اور اسے ہسپتال پہنچادیا ۔ ضرورت سے زیادہ اعتماد بعض اوقات انسان کو اونچائی سے گرا دیتا ہے۔2013 کے انتخابات حیران کن تبدیلی لے کر آئے ہیں۔شکر ہے ہرگھر سے بھٹو نکل گیا اور شیخ رشید کے ساتھ دھاندلی نہیں ہوئی۔
 
Top