شمع رسالت کے پروانوں پر گیس اور گولیوں کی بوچھاڑ کالم نگار | نوشاد حمید

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جب تک امت مسلمہ کا ہر فرد آقائے دو جہاں محمد کو اپنی جان، مال اور اپنی اولاد سے عزیز تر اور مقدم و مقدس نہ سمجھے تو اس کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ اس طرح رسول پاک حضرت محمد کی حرمت پر موت کو سینے سے لگانا ہر مسلمان کا نہ صرف دینی فریضہ ہے بلکہ کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔اس کیلئے کسی مسلمان کا بڑا عالم فاضل ہونا ضروری نہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں نبی پاک کی حرمت پر مرمٹنے والا غازی علم الدین شہید آج بھی زندہ ہے۔ ایک معمولی کوچوان کو جب حرمت رسول کی سمجھ آئی تو اس کے نزدیک جسمانی جان کی کوئی اہمیت نہ رہی۔امریکہ میں ایک شاتم رسول نے رسول اکرم کی شان میں گستاخانہ فلم بنائی تو150 کروڑ مسلمانوں میں غم و غصہ کی شدید لہر کا دوڑنا ایک فطری عمل تھا کیونکہ اپنے آقا و مولا کی شان میں ذرا سی گستاخی پر چپ رہنے والا مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو سکتا ہے۔ اس لئے عالم اسلام کے تمام لوگ ہمہ تن سراپا احتجاج بن گئے۔یوم عشق رسول کے موقع پر پاکستانی قوم کا جوش و جذبہ ایک سچے مسلمان کی عکاسی کر رہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس موقع پر توڑ پھوڑ اور تشدد کا عنصر بھی غالب رہا۔ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن ارباب حق وعقد اور امریکہ نواز حکمرانوں کو کھلے دل و دماغ سے اس امر کا جائزہ بھی لینا چاہئے کہ ایسے واقعات کے محرکات کیا ہیں۔یوم عشق رسول پر مسلمانوں کے احتجاجی جلوس امریکہ کے سفارت اور قونصل خانوں تک جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے تھے جبکہ ہمارا حکمران ٹولہ نبی پاک کے عشق و محبت میں ڈوبے ہوئے مسلمانوں کو وہاں جانے سے روک رہا تھا۔ احتجاج کو روکنے کیلئے ہمارے حکمرانوں نے کیپیٹل سٹی سیل کر دیا تھا اور پھر معصوم لوگوں کو روکنے کیلئے ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے جو شاید دہشت گردوں کے خلاف بھی استعمال نہ کئے جاتے ہوں۔ اس طرح انہوںنے احتجاج روکنے کی آڑ میں لوگوں کے غم و غصے کا گراف آسمان تک پہنچا دیا۔ شاید مظاہروں کے دوران احتجاجی مظاہرین نے اتنی آگ نہ لگائی ہو جتنی آگ مظاہرین کے جذبات کو بھڑکانے کیلئے ہماری پولیس نے لگائی۔ عشق مصطفی میں ڈوبے مظاہرین کو سفارت خانے تک جانے دیاجاتا اور وہاں حرمت رسول پہ جان بھی قربان ہے ایسے عشق و محبت سے لبریز نعرے لگانے کا موقع فراہم کر دیا جاتا تو ایسا ہوشربا نقصان کبھی نہ ہوتا۔ سفارت خانوں کے باہر طاقتور سکیورٹی زیادہ تعداد میں لگائی جا سکتی تھی لیکن انتظامیہ نے ایمانی آگ کو آنسو گیس اور گولیوں سے بجھانے کی ناکام کوشش کی جسمیں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ اب بھی وقت ہے معاشرے میں محبت و عقیدت اور امن و آشتی کا پیغام پھیلانے کا بندوبست کریں۔ شمع رسالت کے پروانوں پر گولیاں برسانے کی بجائے انہیں اعتماد میں لے کر رسول عربی کا مقدمہ مضبوط بنیادوں اور احسن انداز میں لڑا جائے ۔امریکہ کو خوش کرنے کی بجائے اللہ اور اس کے پیارے محبوب کو راضی کرنے کا بندوبست کریں۔
بشکریہ نوائے وقت
 

باباجی

محفلین
میں نے اسی دن ایکسپریس نیوز پر شاہ زیب خانزادہ کا پروگرام دیکھا تھا
اس میں ایک لڑکا دکھایا جس کی عمر بمشکل 16، 17 سال ہوگی
اس سے جب پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ شدید بخار کی حالت میں ریلی میں شرکت کے لیئے آیا تھا
اور جب وہ لوگ ڈی چوک میں پہنچے تو پر امن تھے کوئی انتشار نا تھا
اتنے میں اچانک پولیس نے شیلنگ شروع کردی جس سے ریلی کے شرکاء مشتعل ہوگئے
اس لڑکے یہ الفاظ تھے کہ اگر ہمیں چھیڑا گیا یا کمزور سمجھا گیا تو ہم لوگوں نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھی

یہ چیز کیا ظاہر کرتی ہے ؟؟؟؟؟
کوئی بتا سکتا ہے کیا
 

دوست

محفلین
وہاں انہوں نے نعرے نہیں لگانے تھے۔ آگ لگانی تھی۔ جیسا کہ سینماؤں کو آگ لگا کر اور "فحش" پوسٹر پھاڑ کر حبِ رسول ﷺ کے عظیم الشان مظاہروں میں کیا گیا۔
 
Top