شام میں اہلِ شام کی بپتا


شام جو اب سوریا انگلش

(Syria)
کہلاتا ہے، عہد قدیم سے انسانی تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا ہے۔ اس کا دارالحکومت دمشق دنیا کا قدیم ترین دارالحکومت ہے جو ہزارں سال سے مسلسل آباد چلا آ رہا ہے اور کوئی اور دارالحکومت اس کا ثانی نہیں۔ دمشق 41ھ سے 132ھ تک دولت امویہ کا دارالخلافہ بھی رہا۔ ماضی کے شام میں وہ سارا علاقہ شامل تھا جو حران اور انطاکیہ (جنوبی ترکی) اور دریائے فرات سے لے کر غزہ ہاشم کے مغرب میں العریش (مصر) تک اور بحیرہ روم سے جزیرہ نمائے عرب میں جبال طے اور تبوک تک پھیلا ہوا تھا جس میں آج کے اردن، لبنان اور فلسطین پورے کے پورے شامل تھے۔ بعض مفسرین نے سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کے الفاظ بٰرَکْنَا حَوْلَہ‘ سے سارا ملک شام بشمول فلسطین مراد لیاہے۔سورہ قریش کی آیت رِحْلَۃَ الشِّتَائِ وَ الصَّیْفِ میں قریش کی رحلت صیف یعنی گرمائی سفر کی تفسیر بھی ملک شام سے کی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے لڑکپن میں چچا ابو طالب کے ساتھ بصری الشام کا سفر کیاتھا۔ صحیح بخاری کی ایک روایت ہے نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی تھی:
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَامِنَا (اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت دے)
گویا سید الانبیائﷺ نے اس دعا میں فتح شام کی خوشخبری دے دی تھی۔ چنانچہ عہد فاروقی میں دمشق سیدنا ابو عبیدہؓ اور سیدنا خالدؓ بن ولید کے ہاتھوں فتح ہوا (15 رجب، 14ھ ، 5 ستمبر 635ئ)۔ پھر جمادی الآخرہ 15ھ اگست 636ء میں معرکہ یرموک کی فتح مبین نے تمام شام کے دروازے مسلمانوں پر کھول دیئے حتیٰ کہ ربیع الآخر 16ھ مئی 637ء میں مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس خلیفۃ المسلمین سیدنا عمر فاروقؓ کی مرکز خلافت سے آمد پر اسقف صفروینوس کے ساتھ معاہدہ صلح کی رو سے فتح ہوگیا۔ شام میں بڑے بڑے علماء اور محدثین پیدا ہوئے۔ امام نووی، امام ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن عساکر، حافظ ابن حجر عسقلانی، المقدسی، یاقوت حموی، الحلبی اور الطرطوسی رحم اللہ اجمعین ان میں سے چند نام ہیں۔ یہیں دمشق میں خلیفہ عبدالملک بن مروان کے خلف الرشید خلیفہ ولید نے حکمرانی کی جن کے دس سالہ دور (85ھ تا 95ھ) میں اسلامی سلطنت کی حدود چین سے فرانس تک پھیل گئیں۔ یہیں مجاہدین اسلام سلطان نور الدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے حکومت کی۔ یہیں شہر حمص میں فاتح اسلام سیدنا خالدؓ بن ولید، عیاضؓ بن غنم، عبیداللہ بن عمرؓ، سفینہ مولیٰ رسول، سیدنا ابودردائؓ اور سیدنا ابوذرغفاریؓ دفن ہیں۔ یہیں انطاکیہ ہے جہاں قیصر روم ہرقل نے شکست یرموک کے بعد عالم یاس میں کہا تھا: اے سوریہ (شام)! تجھے الوداع کہنے والے کا سلام، جسے امید نہیں کہ وہ کبھی لوٹ کر تیرے ہاں آئے گا‘‘۔
آج وہ شام ایک ملحد گروہ کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنا ہوا ہے جنہیں نصیری کہا جاتا ہے۔ فرانسیسی سامراج نے اپنے پچیس تیس سالہ دور حکومت میں نصیری اقلیت کو علوی کا نام دے کرانہیں فوج، پولیس اور انتظامیہ میں بھرتی کیا۔ مائیکل عفلق عیسائی نے بعث پارٹی (حزب العبث) قائم کی تو نصیری اس میں بھی پیش پیش رہے۔ حزب البعث نے شام اور عراق میں پنجے گاڑ کر مسلمانوں کی وحدت کوپارہ پارہ کیا اوران دونوں ملکوں میں 1963ء میں فوجی انقلاب برپا کر کے اقتدار حاصل کر لیا۔ چنانچہ 1970ء میں علوی وزیر دفاع حافظ الاسد نے بعثی صدر نور الدین العطاشی اور وزیراعظم یوسف زین کا تختہ الٹ کر خود اقتدار سنبھال لیا۔ حافظ الاسد کے تیس سالہ دورمیں جبر و ظلم کارفرما رہا۔ حکمران حزب البعث واحد سیاسی جماعت تھی چنانچہ حافظ الاسد 99.9 فیصد کی اکثریت سے صدر منتخب ہوتا رہا۔ ایران عراق جنگ (1980-88ئ) میں اس نے نصیری شیعہ ہونے کی بناء پر ایران کا ساتھ دیا۔ فروری 1982ء میں شام کے شہرحماۃ کے مسلمان، نصیری مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو حافظ الاسد کی فوج نے وہاں ٹینکوں سے گولہ باری کی اور خون کی ندیاں بہا دیں حتیٰ کہ جامع مسجد حماۃ شہداء کے خون سے رنگی گئی۔ شہدائے حماۃ کی تعداد کا اندازہ 20 تا 45 ہزار ہے۔ حافظ الاسد کا بھائی رفعت الاسد انٹیلی جنس کا سربراہ تھا جو اہل سنت مسلمانوں پر ظلم ڈھانے میں بیباک تھا۔ آمر حافظ الاسد جون 2000ء میں مر گیا تو اس کے بیٹے بشار الاسد نے پیرس سے آ کر حکومت سنبھالی۔ بیٹا بھی باپ کے راستے پر چل رہا ہے۔ فروری 2011ء میں مصر میں کامیاب انقلاب برپا ہوا اور حسنی مبارک کا تختِ اقتدار الٹ گیا اور اس سے ایک ماہ پہلے تونس کا جلاد زین العابدین بن علی رخصت ہوا تو مارچ میں شام کے عوام بھی بشار الاسد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ نصیری حکومت نے پرامن مظاہرین پرٹینک چڑھا دیئے۔ تحریک آزادی کا آغاز درعا سے ہوا جہاں سکول کے بچوں نے سکول کی دیوار پر حکومت کے خلاف نعرے لکھ دیئے تھے۔ بچوں کو گرفتار کر کے بندی خانوں میں ان کے ناخن اکھاڑے گئے، انہیں جلتے سگریٹوں سے داغا گیا اور قتل کی دھمکی دیتے ہوئے وحشیانہ طور پر پیٹا گیا۔
کویتی جریدہ ’’الفرقان‘‘ اداریے میں لکھتا ہے: ’’شامی عوام انسانیت سے عاری ایک مجرم (بشار الاسد) اور اخلاق سے عاری گروہ (علویوں) کے ہاتھوں سوا سال سے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں، سرکاری اہلکار ان کے خلاف تعذیب و تشدد کے تمام ہتھیار استعمال کر رہے ہیں جن میں خواتین کی آبرو ریزی، بچوں کا قتل، ہاتھ پائوں کاٹنا، زندہ جلا دینا یا سب کے سامنے زندہ دفن کر دینا، آنکھیں نکال دینا یا آری سے کان کاٹ دینا ایسی ہولناک کارروائیاں ہیں جن کے متعلق دنیا والوں نے نہیں سنا ہو گا۔ انہوں نے مساجد مسمار کی ہیں، قرآن مجید جلائے ہیں، گھروں کو لوٹا ہے اور اہل خانہ سمیت گھر جلائے ہیں۔ تیل چھڑک کر آگ لگائی ہے اور بھاری اور ہلکے آتشیں اسلحہ سمیت حریت پسندوں کے خلاف ہر نوع کا اسلحہ استعمال کیا ہے۔ عربوں اور اقوام متحدہ کی امن کوششوں کے باوجود وہ شخص اپنے جرائم سے باز نہیں آیا اور ان کے ارتکاب میں روسی، ایرانی، عراقی، لبنانی (حزب اللہ) اس کی مدد کر رہے ہیں اور وہ عالمی مداخلت کی ہرکوشش کو ناکام کیے دے رہے ہیں۔ عراقی وزیراعظم (نور المالکی) کا تہران سے گٹھ جوڑ اس کے دورہ ایران سے عیاں ہے جہاں اس نے اعلان کیا کہ وہ شامی حکومت کی بقاء کے لئے اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسے اسلحہ کی فراہمی عراق کے راستے، آسان بنا رہے ہیں جبکہ جرمنی اور چین کی طرف سے آنے والا اسلحہ پکڑا گیا ہے مگر شامی عوام کے لئے اسلحہ ممنوع ہے‘‘۔
ولید ابراہیم الاحمد، الفرقان میں لکھتے ہیں: ’’بیروت سے سرحد تک 4روزہ سفر میں ہم نے شامی مہاجرین سے ظلم و تعذیب اور قید و بند کی زہرہ گداز داستانیں سنی ہیں اور شامی سرحد پر دلدوز مناظردیکھنے میں آئے ہیں۔ آٹھ سال سے کم ایک چھوٹے بچے کا تصور کریں کہ وہ اپنی باقی زندگی کیسے بسر کرے گا جبکہ بشار الاسد کے جلادوں نے اس کا دایاں ہاتھ کندھے سے کاٹ ڈالا۔ اس کے باوجود ہم نے اسے طرابلس کے سرکاری ہسپتال میں عالی ہمت اور مسکراتے ہوئے پایا۔ ایک شخص کے سر میں گولی لگی تھی اور اس کے گھر والے اسے قبرستان لے جا رہے تھے اس خیال سے کہ یہ دم توڑ چکا ہے، تب اچانک اس کے دل کی دھڑکن محسوس ہوئی تو اسے سرحد پار لبنان لے آئے تاکہ اس کا علاج ہو سکے۔ اس کا جسم بے حد نحیف ہے اور وہ اب تک بے ہوش ہے۔ اس کا ایک زخم بہت گہرا ہے اور وہ زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ اللہ کا حکم ہوا تو وہ ٹھیک ہو جائے گا۔
مہاجرین میں کئی خاندان ہیں جن کے لڑکے گرفتار کر لئے گئے اور ان کے ساتھی شہید کر دیئے گئے چنانچہ ان لوگوں نے اپنی بیٹیوں کی آبرو بچانے کے لئے شام سے بھاگ کر لبنان میں آپناہ لی۔ یہ سفر انہوں نے تحریک مقاومت کی مدد سے یا سرکاری حکام کو مال دے کر کیا۔ ہم شامی سرحد پر واقع قصبہ مجدل عنجر پہنچے۔ وہاں ہجرت کر کے آنے والے بعض گھرانوں کو تو اہل خیر لبنانیوں کے ہاں پناہ مل گئی لیکن اب وہ روٹی روزی کے لئے کیا کریں؟ دیگر گھرانے بقاع کی وادی میں پڑے ہیں۔ ہم سرحدی گیٹ تک گئے جو شامی پناہ گزینوں کے استقبال کے لئے کھلا پڑا تھا، شام میں اب تک تقریبا 20000 سے زائد شہری شہید کر دیئے گئے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچے اور اتنی ہی خواتین شامل ہیں‘‘۔
الفرقان کے ایک اور شمارے میں حقوق انسانی کی تنظیم الجمعیۃ الکویتیہ کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عورتیں اور بچے بشار حکومت کے خلافِ انسانیت جرائم کا خاص طور پر نشانہ بن رہے ہیں۔ شہر درعا (قدیم ’’اذرعات شام‘‘) سے شروع ہونے والی پرامن تحریک ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی ہے۔ پرامن شہریوں کو گرفتار کر کے ان پر وحشیانہ مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ ان میں جلتے سگریٹوں سے جسم کو داغنا، کھال اتارنا، برقی برمے سے جسم میں سوراخ کرنا، آگ میں جلانا، ابلتا ہوا پانی حلق میں انڈیلنا، جسم میں کیل ٹھونکنا، پنڈلیوں میں گولیاں مارنا، ہاتھوں اور پائوں کی انگلیوں کی ہڈیاں توڑنا او عضو تناسل کاٹ ڈالنا جیسے گھنائونے جرائم شامل ہیں جیسا کہ حمزہ شہید نامی بچے کے ساتھ ہوا۔ مزید برآں بعض مظاہرین جو آزادی کے گیت گا رہے تھے، ظالموں نے انہیں پکڑ کی ان کی زبانیں گدی سے کھینچ ڈالیں اور انہیں قتل کر کے لاشیں دریا میں پھینک دیں۔ بشار حکومت کی وحشی پولیس، فوجیوں اور کرائے کے غنڈوں نے جسر الثغور، حمص اور گردونواح اور ادلب میں سینکڑوں عورتوں کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ اور بے آبروئی کی ہے۔ درعا، رستن، جسر الثغور، ادلب اور حمص میں توپوں اور سکڈ میزائلوں سے تباہی مچائی ہے۔ ہزاروں شہری اپنی جانیں بچانے کے لئے ترکی، لبنان اور اردن میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ حکومت اپنے مسلح مخالفین اور عام شہریوں کے خلاف مارٹر توپیں، طیارہ شکن توپیں، ٹینک اور میزائل سارے ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ عوام کے خلاف اس طرح فوج استعمال کی جا رہی ہے جیسے ملک پر دشمن حملہ آور ہو گیا ہو۔ سرحدوں کی طرف جانے والے پناہ گزینوں کا پیچھا کر کے ان پر فائرنگ اور گولہ باری کی جاتی ہے۔ کئی لوگ زخمی ہو کر گر پڑتے ہیں، یا مارے جاتے ہیں۔ تل کلخ میں ایک حاملہ عورت جو اپنے شوہر کے ساتھ پناہ لینے کے لئے لبنانی سرحد کی طرف بھاگ رہی تھی، سکیورٹی فورسز نے اسے گولی مار کر شہید کر دیا۔ اس کا گناہ اس کے سوا کیا تھا کہ وہ چاہتی تھی بھاگ کر ظالموں سے اپنی جان بچا لے!


بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔علی اوڈراجپوت
ali oadrajput
 
Top