شامِ غریباں از مرثیۂ جمیل مظہری

منہاج علی

محفلین
شام ِ غم شامِ الم شامِ غریباں ہے یہ شام
خون ِسادات سے گلزار بہ داماں ہے یہ شام
مرثیہ خوان ِشباب ِگل و ریحاں ہے یہ شام
چند خیمے ابھی جلتے ہیں چراغاں ہے یہ شام

اور سلگتا ہے ادھر زینب و کلثوم کا دل
امِ قاسم کا جگر مادرِ معصوم کا دل

فتح ظلمت کی ہوئی جشن منائے گی یہ رات
تیرگیِ دل اشرار بڑھائے گی یہ رات
ان کی جرموں کی نشانی کو چھپائے گی یہ رات
پردہ آثارِ شہادت پہ گرائے کی یہ رات

لے کے آئی ہے ردا ماجرا پوشی اس کی
کتنی گمبھیر ہے جنگل میں خموشی اس کی

دشت میں گنجِ شہیداں کی بہار ایک طرف
زرد چہروں پہ یتیمی کا غبار ایک طرف
دھیمی دھیمی سی وہ اشکوں کی پھوار ایک طرف
سہمی سہمی ہوئی پانی کی پکار ایک طرف

ہنہناتے ہوئے گھوڑوں کی صدائیں اک سمت
سوکھے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ دعائیں اک سمت

فوجِ شاہی میں ادھر تہنیتِ فتح کی دھوم
اور ادھر خاک پہ امت کے اسیروں کا ہجوم
بے کفن دشت میں ہر فدیہ ٔرب قیوم
گردِ صحرا کی ردا جن کو اڑھاتی ہے سموم

ہُو کا عالم ہے فضا چپ ہے بیاباں چپ ہے
قافلہ وقت کا چلتا ہے خدی خواں چپ ہے

موجیں دریا کی ہیں خاموش ہوا نیند میں ہے
بیکسی چپ ہے گروہِ شہدا نیند میں ہے
ہر اسیرِ الم و رنج و بلا نیند میں ہے
سوئی ہے غیرتِ حق قہرِ خدا نیند میں ہے

کون پہرے پہ ہو بنتِ اسد ِ رب کے سوا
کوئی بیدار نہیں ہے دلِ زینبؑ کے سوا

جمیل مظہری
 

سیما علی

لائبریرین
موجیں دریا کی ہیں خاموش ہوا نیند میں ہے
بیکسی چپ ہے گروہِ شہدا نیند میں ہے
ہر اسیرِ الم و رنج و بلا نیند میں ہے
سوئی ہے غیرتِ حق قہرِ خدا نیند میں ہے

کون پہرے پہ ہو بنتِ اسد ِ رب کے سوا
کوئی بیدار نہیں ہے دلِ زینبؑ کے سوا
سبحان اللّہ سبحان اللّہ
 

الف نظامی

لائبریرین
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں
-
کیا بات تیرے فرقِ شفق رنگ کی مولا
کیا کہنا ہے تیرے لبِ قرآن سرا کا
 
Top