فراز شاخِ نہالِ غم

mtahirz

محفلین
میں اک برگِ خزاں کی مانند
کب سے شاخِ نہالِ غم پر
لرز رہاہوں
مجھے ابھی تک ہے یاد وہ جاں فگار ساعت
کہ جب بہاروں کی آخری شام
مجھ سے کچھ یوں لپٹ کے روئی
کہ جیسے اب عمر بھر نہ دیکھے گا
ہم میں ایک دوسرے کو کوئی
وہ رات کتنی کڑی تھی
جب آندھیوں کے شب خوں سے
بُوئے گل بھی لہو لہو تھی

سحر ہوئی جب تو پیڑ یوں خشک و زرد رُو تھے
کہ جیسے مقتل میں میرے بچھڑے ہُوے رفیقوں کی
زخم خوردہ برہنہ لاشیں
گڑی ہُوئی ہوں
میں جانتا تھا
کہ جب یہ بوجھل اشجار
جن کی کہنہ جڑیں زمیں کی عمیق گہرائیوں میں برسوں سے جا گزریں تھیں
ہجومِ صر صر میں چند لمحے یہ ایستادہ نہ رہ سکے تو
میں ایک برگِ خزاں بھی
شاخِ نہالِ غم پر رہ سکوں گا

وہ ایک پل تھا کہ ایک رُت تھی
مگر مرے واسطے بہت تھی
مجھے خبر ہے کہ کل بہاروں کی اولین صبح
پھر سے بے برگ و بار شاخوں کو
زندگی کی نئی قباہیں عطا کرے گی
مگر مرا دل دھڑک رہا ہے
مجھے ، جسے آندھیوں کی یورش
خزاں کے طوفان نہ چُھوسکے ہیں
کہیں نسیمِ بہار۔۔۔۔شاخِ نہالِ غم سے جُدا نہ کر دے
 
Top