حزیں صدیقی شائستہءجمال ہوئے کب نظر کے خواب۔۔۔۔حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
شائستہء جمال ہوئے کب نظر کے خواب
بن بن کے اشک آنکھ سے ٹپکے سحر کے خواب

کاغذ پہ سج گئے کبھی پتھر میں ڈھل گئے
بھٹکے ہوئے خیال ہیں اہلِ نظر کے خواب

کیسا نکھر گیا ہے شبستانِ آرزو
آئے ہیں آج کس کی نظر سے گزر کے خواب

تھی وہ بھی ایک چھوٹ کسی کے خیال کی
میری کہاں بساط کہ دیکھوں اُدھر کے خواب

گزری سفر میں عمر مگر حاصلِ سفر
کچھ منزلوں کے خواب تو کچھ رہگزر کے خواب

بیداریءنظر سے ہے تعبیر زندگی
آنکھیں مُندیں کہ ختم ہوئے عمر بھر کے خواب

جلنا پڑے گا اب تو قیامت کی دھوپ میں
کس نے کہا تھا دیکھ نگارِ سَحر کے خواب

کانٹوں کے فرش پر یہ جنوں کہہ کے سوگیا
دیکھے نہ کوئی بھول کے گلہائے تر کے خواب

غربت کا مرحلہ وہ قیامت سے کم نہیں
چِھن جائیں جب غریب کی آنکھوں سے گھر کے خواب

دل سے اِدھر زبان پہ آئی اُدھر قبول
وہ بھی کوئی دعا ہے کہ دیکھے اثر کے خواب

دن بھر کے زخم آنکھ سے رستے ہیں رات بھر
آئے کسی کو نیند تو دیکھے سَحر کے خواب

کب سے بلا رہا ہے کوئی عرش پر ہمیں
ہم ہیں کہ دیکھتے ہیں ابھی بال و پر کے خواب

رہئے نگار خانہء فطرت میں اے حزیں
اور بھول کر نہ دیکھئے عرضِ ہنر کے خواب

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر

والسلام
 
Top