سیاسی شطرنجی کھیل میں تازہ ترین چالیں، کیا پانسہ پلٹنے کو ہے؟

زیرک

محفلین
سیاسی شطرنجی کھیل میں تازہ ترین چالیں، کیا پانسہ پلٹنے کو ہے؟
سیاسی موسم میں تازہ ترین تبدیلی کے بعد ن لیگ اب اپنی تھاں پہنچ گئی ہے لہٰذا اب ن لیگی لیڈرشپ اسٹیبلشمنٹ پر نقطہ چینی نہیں کیا کرے گی بلکہ ان کا نشانہ تبدیلی سرکار ہوا کرے گی۔ آپ دیکھیں گے کہ آئندہ چند روز میں ن لیگ کی پاکستان اور بیرون ملک قیادت کا ہدف صرف عمران خان ہوں گے، مہنگائی اور بیڈ گورنس کو اشو بنایا جائے گا، عمران خان کی کردار کشی کی جائے گی اور جنرل باجوہ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اس کے عوض وہ کیا حاصل کرے گی یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ موجودہ مشکل معاشی حالات میں اپوزیشن کی کوئی بھی جماعت حکومت نہیں بنانا چاہتی، وہ چاہتی ہیں کہ عمران خان خوب بدنام ہوں تاکہ ان کے پاس سیاسی میدان میں واپسی کا راستہ نہ رہے۔ اپوزیشن لیڈر شپ اگلے سال یا دو سال میں خود بھی نہیں چاہے گی کہ وہ گرم توے پر بیٹھے، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت بنانے کی صورت میں وزارتِ عظمیٰ کسی چھوٹے گروپ کو دئیے جانے کی باتیں کئی دنوں سے گردش کر رہی ہیں اگر کوئی اس کام کے لیے راضی نہ ہوا تو عمران خان کو گرم توے پر بٹھائے رکھنے کا پلان ہی چلے گا۔ صوبائی حکومتوں میں سندھ اور خیبر پختونخواہ کو عددی لحاظ سے کوئی خطرہ نہیں، لیکن ن لیگ پنجاب کا پانی پت ضرور فتح کرنے کے چکر میں دکھائی دیتی ہے، کیونکہ اگر ان کی لیڈرشپ واپس نہیں آتی اور پنجاب بھی ہاتھ میں نہیں رہتا تو پھر اگلے الیکشن سے پہلے ان کے پاس پارٹی کو قائم رکھنے کے لیے کچھ نہیں بچے گا، اس لیے پنجاب کا پانی پت اگلے چند ماہ میں ایک بار پھر گرم ہونے کا امکان ہے۔ قارئین آپ جانتے ہیں جب ایسا سیاسی موسم چل رہا ہوں تو ہر وہ گروہ جسے عام حالات میں کچھ نہیں مل رہا ہوتا وہ کچھ حاصل کرنے کی تگ و دو شروع کر دیتا ہے، حکومت میں شامل ہوتے وقت ان سے جو وعدے کیے جاتے ہیں ان میں سے اکثر پورے نہیں کیے جاتے، آج ایم کیو ایم پاکستان نے حکومت سے آدھی علیحدگی اختیار کر لی ہے، ایک وزیر نے استعفیٰ دے دیا ہے، دوسرا کابینہ کا حصہ ہے اور حکومت کی حمایت کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے، گویا سارے آپشن کھلے رکھے گئے ہیں۔ کم طاقتور گروہوں کی جانب سے ایسی ہی پوزیشن میں اپنے مطالبات منوائے جاتے ہیں کیونکہ عام حالات میں انہیں حکومت گھاس نہیں ڈالتی اور ایسے مخصوص حالات میں وہ سارا چارہ ہڑپ کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ حکومت کے دوسرے اہم حلیف جی ڈی اے نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں، ایک اور حکومتی اتحادی جماعت بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی اپنی پارٹی کا اجلاس بلا لیا ہے، اور ان کا بھی کچھ ایسا ہی ملا جلا مطالبہ آئندہ ہفتے میں سامنے آ جائے گا۔ سب سے اہم چال ق لیگ کی ہو گی، اسے جہاں سے بڑی آفر آئے گی وہاں ہی بسیرا کرے گی۔ قارئین وہ جو کہتا تھا "مجھے کوئی بلیک میل نہیں کر سکتا"۔ اب ہر مہینے دو مہینے بعد بلیک میل ہوتا ہے اور رو بھی نہیں سکتا، ہر بار بلیک میلر کو راضی رکھنے کے لیے جہانگیر ترین کا بنک خالی کیا جاتا ہے اور اس کے عوضانے کے طور پر چینی کی قیمتیں بڑھا کر اس کا خسارہ پورا کیا جاتا ہے ظاہر ہے "جو لگائے گا وہ تو دگنا کمائے گا" چاہے اس کے لیے عوام ساری عمر کے لیے خسارے میں پڑی رہے۔ بڑے گھر کے بھیدی نے بتایا ہے کہ عمران خان نے اپنی حکومت کو ختم ہونے سے بچانے کا پلان آئی بھی بنا رکھا ہے کہ اپوزیشن کو حکومت بنانے سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ توڑ کر نئے الیکشن کروانے کا نوٹی فیکیشن صرف صدر مملکت کی منظوری کا منتظر ہے، جیسے ہی حالات ہاتھ سے نکلنا شروع ہوں گے یہ آپشن بھی استعمال کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ اصل حکمرانوں نے اس کی اجازت دی۔ دیکھتے ہیں اس سیاسی شطرنج میں اس بار کون کس کا پانسہ پلٹتا ہے؟
 
Top