سوشل میڈیا اور اخلاقی اقدار

یوسف-2

محفلین
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ انسانوں پر ذاتی تبصرے کا حق ہمیں کس نے دیا ہے ۔ خواہ وہ انسان کوئی بہت بری شہرت کا حامل سیاست دان ہو؟ مجھے اس سچ کے اظہار کے لیے معاف فرمائیے کہ سیاست دان بھی انسان ہوتے ہیں۔
(×) بُرے کو بُرا کہنے کا حق ؟ بُرے انسانوں کی ذات پر، اُس کی بُرائی کے حوالہ سے تبصرہ کرنے کا حق؟ اگر مراد یہی حق ہے تو یہ حق دنیا کا ہر ”نظام“ (بشمول اسلام) عطا کرتا ہے۔

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے : مسلمان کی جان، مال، عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے سوائے اسلام کے حق کے ۔
(×) اور کیا اسلام کا یہ ”حق“ نہیں ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات کا کھلم کھلا مذاق اڑائے (وعیدے کوئی قرآن حدیث نہیں ہوتے کہ انہیں توڑا نہ جاسکے) ، اسلامی ریاست کے سربراہ یا اہم حکومتی مناصب پر پہنچ کرغیر اسلامی کلچر کو ملک بھر میں فروغ دے تب بھی ایسے فرد کو ایکسپوز نہ کیا جائے۔ دستیاب وسائل (میڈیا، سوشیل میڈیا وغیرہ) کو استعمال کرتے ہوئے اُس کے ”ذاتی عیوب“ سے عوام کو آگاہ نہ کیا جائے تاکہ مومنین کی اکثریت ایک ہی سوراخ سے نہ ڈسی جائے۔ کیا یہ میڈیا پرسنز اور سوشیل میڈیا یوزر کا فرض نہیں ہے؟

کیا کسی انسان کے بری شہرت کا حامل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی عزت ہم پر حلال ہو گئی ہے ؟ کوئی عورت خواہ شو بز سے تعلق رکھتی ہے اور کتنی ہی بری شہرت رکھتی ہے پھر بھی میرے لیے یہ کیسے جائز ہے کہ اس کے متعلق بلاثبوت کوئی بات کر دوں؟ ہمیں کیسے یقین ہے کہ ہم جو جی میں آئے اس کے بارے میں کہہ ڈالیں ، ہم سے کوئی حساب نہ ہو گا؟
(×) یہاں تو مجھے منٹو عصمت اینڈ کمپنی کی تحریروں کا ”عکس“ نظر آرہا ہے۔ اس گروپ کے قلمکاروں نے ساری عمر یہی تو کیا ہے کہ معاشرے کے گندے کرداروں (شرابی، زانی، طوائف اینڈ کمپنی) کواپنی تحریروں کے ذریعہ ”خوشنما، باکردار اور ایک اچھا انسان“ دکھلایا اور مذہبی کرداروں (مولوی، مؤذن وغیرہ) کی انفرادی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں معاشرے میں رُسوا کر نے کا بٰرا اُٹھایا۔ کوٹھے پر مجرا (وغیرہ) کرکے اور شوبز میں اپنی نسوانیت کو بیچ کرپیسے کمانے والیوں میں بھلا کیا فرق ہے۔ بلکہ مؤخرالزکر تو اس اعتبار سے ”بدتر“ ہے کہ وہ اپنے ”کاروباری امور“ کو وسیع پیمانے پر ہر خاص و عام کے گھروں کے اندر تک انجام دینے کی ”طاقت“ رکھتی ہے، بےکردار یا بد کردار ریاستی حکمرانوں کی پشت پناہی سے۔ کیا میں اس ”طبقہ بدتر“ کو ایکسپوز کرنے کے لئے بھی کسی ”ثبوت“ کا انتطار کروں؟
یہ ہے شو بز کی عورت


یوں لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر سیاست دان ، ایکٹر ، کھلاڑی، علماء، مشہور یا غیر معروف انسانوں کے متعلق ہم سب کچھ بلا ثبوت کہنے کی آزادی رکھتے ہیں ۔ اور اگر سیاست دان عورت ہو تو ۔۔۔ ہمیں زیادہ چٹ پٹی باتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے، جب مقدس مشرق کے سپوتوں کو ہرجملے میں ذومعنی مضمون سوجھ رہے ہوں تو روکھی سوکھی اخلاقیات کہاں یاد آتی ہیں ؟
یہاں ایک اور سچ کی جانب توجہ مبذول کرانے کی خواہش ہے کہ عورت بھی ۔۔۔ انسان ہے ۔ نہ کم تر ، نہ بر تر ، صرف انسان ۔ بعض سطحی قلم کاروں کا اسے ہمیشہ ایک ہی زاوئیے سے دیکھنا کسی شدید مرض کی علامت تو ہو سکتا ہے کوئی قابل فخر بات نہیں ۔
(×) لگتا ہے کہ آپ میڈیا کے کردار ہی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ میڈیا کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ محض ”واقعات“ کو رپورٹ کرے یا اپنے قارئین و ناظرین کو تفریح فراہم کرے۔ بلکہ میڈیا کا ”اصل کام“ یہ ہے کہ وہ ہر ”پبلک فیگر“ کے ہر ”مشتبہ حرکات و سکنات“ پر نظر رکھے اور عوام کو اس سے آگاہ کرے تاکہ عوام اُن کے ”شر“ سے محفوظ رہ سکیں۔ اگر کوئی رپورٹر کسی کی عزت غلط طور پر اچھالتا ہے تو اُس فرد کا یہ حق ہے کہ وہ اس رپورٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے اور اسے قرار واقعی سزا دلوائے تاکہ میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں کا قلع قمع ہوسکے۔ مثلا" ایک نیو ایئر کی شب کراچی کے ایک پوش علاقے کے ایک فلیٹ سے اہل محلہ کی شکایت پر ایک مشہور گلوکار اور اس کے ساتھی کال گرلز اور شراب کے ساتھ گرفتار ہوتے ہیں۔ اب یہاں نہ تو اہل محلہ کے پاس کوئی ”ثبوت“ تھا کہ وہ اس گلوکار کے خلاف پولس کو رپورٹ کرتے اور نہ ہی اس خبر کو شائع کرنے والے ہر رپورٹر کے پاس اس ”جرم “ کا کوئی ”ثبوت“ تھا۔ تو کیا یہ خبر میڈیا مین شائع و نشر نہ کی جاتی۔ کالمسٹ اس خبر پر کالم، تجزیے اور شذرات نہ لکھتے اور سب کے سب ”ثبوت“ کے منتظر رہتے؟؟؟

مجھے افسوس ہے کہ صحافت کے ساتھ ساتھ سماجی ویب سائٹس کے آئینے میں ہمارے اخلاقی چہرے کا کوئی اتنا اچھا عکس نہیں بن رہا ۔ میں اپنے سماج کی اخلاقی بدصورتی سے نظر چرا کر جاؤں تو جاؤں کہاں ؟ مجھے اپنے لوگوں میں رہنا اچھا لگتا ہے لیکن جب ایسی باتیں ہوتی ہیں تو مجھے دکھ ہوتا ہے ۔ کیا ہم آج اس مسئلے پر اپنے منصفانہ محاسبے کا آغاز کر کے کسی مفید نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں؟
(×) ناطقہ سر بہ گریباں ہے، اسے کیا کہئے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کسی شدید مخمصہ کا شکار ہیں۔ یا تو آپ کو سماج میں موجود اخلاقی بدصورتی کی شدت کا اندازہ نہیں ہے یا آپ اسے کوئی ”معمولی بات“ سمجھ رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اخلاقی بدصورتی کے اس سمندر میں کسی ایسے ”اخلاقی شِپ“ پر رہتی ہوں، جہاں سے ”باہر کی گندگی“ نمایان طور پر نظر نہ آتی ہواور ایسے میں جب آپ کے ”اخلاقی شِپ“ کے اندر میڈیا و سوشیل میڈا کے ذریعہ باہر کی رام کہانی سننے کو ملے تو آپ میڈیا کے آئینہ کو ہی قصور وار قرار دینے لگیں۔ میڈیا کے ”طریقہ رپورٹنگ “ پرتو اعتراض کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ کہنا کہ ”میرے سماج“ کی اخلاقی بدصورتی کا میڈیا کوئی اچھا عکس پیش نہیں کر رہا۔ معاشرتی برائیون کو ”نظر انداز“ کرنا کوئی مستحسن فعل نہیں ہے۔ ہم اگر بزور قوت اس کے خلاف عمل کرنے کے افضل ترین مقام پر فائز نہیں ہوسکتے تو کم از کم بُرے کو بُرا تو کہنے کی جرات کریں۔ اللہ ہم سب کو امر بالمعروف کے ساتھ ساتھ نہی عن المنکر کی بھی توفیق دے آمین۔
 

یوسف-2

محفلین
آمین ۔
بہت ہی خوب صورت ماشاءاللہ ۔

اس تحریر میں شوبز ایکٹرز کا بھی ذکر تھا۔ اللہ نہ کرے کہ مجھے ان کی تعلیمات کی کبھی خبر ہو لیکن پھر بھی بلاثبوت ان پر بھی انگشت نمائی کرنا یا ان کی عزت کو حلال سمجھنا میرے نزدیک غلط ہے ۔ خصوصا تب جب ہم ان کی چٹ پٹی برائیاں کرتے ہوئے برائی کی ترویج میں حصہ لینے لگتے ہیں ۔
آمین ثم آمین
لیکن جن لوگوں کو ”شوبز ایکٹی ویٹی “ کچھ نہ کچھ شد بد ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ”شوبز“ کی آڑ میں کیا گل کھلائے جارہے ہیں، اُنہیں تو ”انگشت نمائی“ کا حق حاصل ہے۔ اگر برائی سے ”واقفیت“ رکھنے والے اہل قلم بھی ان کے خلاف آواز بلند نہ کریں تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارہ وہ مائیں بہنیں بھی ان کی ”تعلیمات کی وبا“ سے متاثر ہوجائیں گی، جو اس وقت محفوظ ہیں۔ جب کسی معاشرے مین کوئی مرض (یا برائی) ”وبائی“ صورت اختیار کرجاتا ہے تو اس کے اثرات بد ”معصوم اور گناہگار“ دونون تک پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ ہمیں اُس وقت سے محفوظ رکھے آمین
 
(×) اور کیا اسلام کا یہ ”حق“ نہیں ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسلامی تعلیمات کا کھلم کھلا مذاق اڑائے (وعیدے کوئی قرآن حدیث نہیں ہوتے کہ انہیں توڑا نہ جاسکے) ، اسلامی ریاست کے سربراہ یا اہم حکومتی مناصب پر پہنچ کرغیر اسلامی کلچر کو ملک بھر میں فروغ دے تب بھی ایسے فرد کو ایکسپوز نہ کیا جائے۔ دستیاب وسائل (میڈیا، سوشیل میڈیا وغیرہ) کو استعمال کرتے ہوئے اُس کے ”ذاتی عیوب“ سے عوام کو آگاہ نہ کیا جائے تاکہ مومنین کی اکثریت ایک ہی سوراخ سے نہ ڈسی جائے۔ کیا یہ میڈیا پرسنز اور سوشیل میڈیا یوزر کا فرض نہیں ہے؟
جی بالکل، اس نے کہا وعدے قرآن حدیث نہیں ہوتے ، ہم نے بیان من وعن رپورٹ کر دیا ، کالم لکھ لیے بات کر لی بات ختم۔ اب کہنے والے کی شکل کو نشانہ بنانا ، اس کی شادی کو جانوروں کی شادی سے تشبیہ دینا ، اس کی اولاد پر تبصرے کرنا یہ سب کیسے جائز ہوا؟ایک طرف امر واقع کی اطلاع ہے اور دوسری طرف غیبت اور بہتان۔ نہی عن المنکر میں بہتان کی ضرورت کب پڑتی ہے ؟ یہاں کون اتنا معصوم ہے کہ انوسٹی گیٹو جرنلزم اور ییلو جرنلزم میں فرق نہ کر سکے ؟
آپ کا وقت دینے کے لیے شکریہ ، شاید سرسری مثالوں کے باوجود میں ’ذاتی تبصروں‘ کی وضاحت نہیں کر پائی، اسی لیے غلط فہمی ہو رہی ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ میں ان مثالوں کو سرسری ہی رہنے دینا چاہتی ہوں ، اگر تفصیلی مثالیں دیں تو میرا ’اخلاقی شپ ‘ ڈوب جائے گا۔ پھر اس تحریر پر خواتین کے تبصرے آنا تو درکنار میرا دیکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ بہر حال میں آپ کا نقطہ نظر سمجھ چکی ہوں ، میرا مقصد وہ نہیں تھا جو آپ نے سمجھا۔مجھے مسئلہ جنریشن گیپ کا لگ رہا ہے ۔
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور​
 
مجھے اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی کہ اسلامی تعلیمات کی طرف جائے۔ بات معاشرے کی ہو رہی۔ اور معاشرتی فکر بحثیت مسلمان اسلام سے الگ نہیں۔ خیر جانے دیجیئے۔ میں خاموش ہو جاتا ہوں :)
اور تبدیلی کے لیئے آپ کسی سے سند لے سکتی ہے کہ نیرنگ خیال کسی کی رائے کو حقیر نہیں سمجھتا۔وغیرہ وغیرہ
باقی احباب بھی انشاءاللہ تبدیلی سے آگاہ کردیں گے۔
بھائی مزاحا کہا تھا ۔ آپ بولیے اور لکھیے ہم منتظر ہیں ۔
 

یوسف-2

محفلین
اس شاباش شریف کا شکریہ ، حقیقت میں یہ دوسرا رخ ذکر نہ ہوتا تو اس گفتگو کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔ اگر آپ آئین میں ترامیم کرانے نہ چل دئیے ہوں تو میری وضاحت سنتے جائیے ۔
:)

ذاتی معاملات میں بلا ثبوت عزت کو حلال کر لینے کا ذکر تھا اور ایک حدیث شریف بھی ذکر کی ہے ۔ آپ اس کا مفہوم اپنی پسند کی کتب سے دیکھ کر بتائیں ہم سے کیا طلب کیا گیا ہے ؟ محاسبہ ظاہری امور پر ہوتا ہے یا کسی کے گھر میں گھس کر اس کا پردہ اٹھا کر؟ امر ابلمعروف کرنے والے محتسب کے بھی آداب اور حدود ہیں یا نہیں ؟ تنقید اور تمسخر کا فرق بھی کوئی اتنا باریک نہیں کہ ہم سمجھ نہ سکیں ۔
(×) ذاتی معاملات، ایک بہت وسیع اصطلاح ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں اس کا ایک ”محدود“ سا مفہوم ہو اور آپ اسی مفہوم کے پس منظر مین صد فیصد درست باتیں کر رہی ہوں۔
دنیا مین انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک عام لوگ، عوام الناس جیسے میں اور آپ۔ ایسے عام لوگوں کے ”ذاتی معاملات“ میں تجسس کرنا بھی گناہ ہے اور اگر ایسے عام لوگوں کے عیوب ہمیں معلوم بھی ہوجائیں تو ان کی پردہ پوشی کا حکم ہے۔ اور ان جیسے عام لوگوں سے ”ڈیلنگ“ ہو تو انہیں حکمت کے ساتھ اُن کے ”بُرے اعمال“ پر اُن کی توجہ دلائی جائے تاکہ اُن تک حق بات پہنچانے کا ”فریضہ“ بھی ادا ہوجائے اور اُن کی معاشرتی تذلیل بھی نہ ہو اور نہ ہی اُن کی عزت نفس مجروح ہو۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے پیش نظر صرف اور صرف ایسے افراد ہیں۔ اس حوالہ سے آپ کی ساری باتیں، دکھ اور تشویش بے جا نہیں بلکہ بجا ہیں۔

”عوامی شخصیات“ کا معاملہ جدا ہے۔ اگر یہ پاورلَس بھی ہوں جیسے مشہورکھلاڑی، مشہور اداکار وغیرہ تب بھی ان کی زندگی اور طرز زندگی کی چھاپ عوام الناس پر وسیع پیمانے پر پڑتےی ہے۔ یہ جیسے کپڑے پہنیں وہ فیشن بن کر ”قبول عام“ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے خواہ وہ فیشن شرعی ہویا غیر شرعی۔ یہ جس برانڈ کی مصنوعات کو استعمال کریں (بطور ماڈل)، ان مصنوعات کا چلن معاشرے مین تیزی سے پھیلنے لگتا ہے، خواہ وہ برانڈ بذات کود ”غیر اسلامی“ ہو یا اس کی آمدن اسلام اور عالم اسلام کے خلاف استعمال ہورہی ہو۔ اگر عوامی شخصیات ”اقتدار کے ایوانوں“ سے تعلق رکھتی ہوں تو یہ دو آتشہ اور کریلہ پہ نیم چڑھا کے مترادف ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی با اقتدارعوامی شخصیات کے غیر اخلاقی اسکینڈلز کو میڈیا کے ذریعہ عوام کے سامنے لایا جاتا ہے اور لایا جانا چاہئے۔ اب اسی ”علامہ صاحب“ کی مثال لے لیں جو دارالاسلام (یا دارالمسلم) سے دارالکفر ”ہجرت“ کر جاتے ہیں۔ ایک کافر ملک کی شہریت لیتے ہوئے یہ حلف اٹھاتے ہی کہ اگر ان کے اس ”نئے ملک“ کا ان کےسابقہ ملک سے کبھی
کسی جنگ میں آمنا سامنا ہوا تو وہ اپنے اس نئے ملک کا ساتھ دیں گے۔ موصوف قبل ازیں اپنے خوابوں کے ذریعہ قوم کو جو کچھ بتلا چکے ہیں، وہ آپ سے پوشیدہ ہرگز نہیں ہے۔ اس ”پس منظر کا حامل“ اگر کوئی علامہ اچانک پاکستان آن کر لاکھوں عوام کے سامنے حلف اٹھا کر اپنی ”پارسائی“ کا اعلان کرتا ہے تو کیا میڈیا کا فریضہ نہیں ہے کہ وہ ایسے لیڈر کا کچا چٹھا عوام کے سامنے کھولنا شروع کر دے۔

صرف ایک مثال : ایک مقبول عام قصہ ۔۔۔ ایک گدھے اور شیرنی کی شادی ہو گئی ۔۔۔ اور پھر یہ ایک خاتون سیاست دان پر چسپاں کرنا ؟ سیاست دانوں کی شکل پر کسی کا دھڑ لگا کر سیاسی مخالفین کو تنگ کرنے کی کوشش کرنا ؟ ہم میں سے کوئی اپنی بیٹی کے لیے یہ پسند کرتا ہے ؟ یہ اسلامی محاسبہ ہے ؟
(×) اس قسم کی غیر اخلاقی یا بدزبانی کی تو عام انسانی اقدار میں بھی اجازت نہیں ہے۔ اسلام سختی سے ایسے رویوں کو رد کرتا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ اس قسم کے نازیبا جملے یا تمثیل کبھی ذمہ دار میڈیا پرسنز ”تخلیق“ نہیں کرتے۔ اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ سوشیل میڈیا تک رسائی رکھنے کے باوجود بہت اچھے ذاتی کردار کے مالک نہیں ہوتے۔

اذان مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے ، اس لیے مختصرا عرض کیا ۔ جب بھی فرصت ملی آپ کا نکتہ نظر ضرور پڑھنا چاہوں گی ۔ دعا کیجیے ہم کچھ بہتر ہو جائیں ۔
(×) آمین ثم آمین
 

عسکری

معطل
:laugh: جی ہاں ہمیں سب پر تبصرے کرنے اور ان پر کومک کارٹون بنانے کا حق ہے کیونکہ ہم بھی انٹرنیٹ کا بل دیتے ہین
 

یوسف-2

محفلین
جی بالکل، اس نے کہا وعدے قرآن حدیث نہیں ہوتے ، ہم نے بیان من وعن رپورٹ کر دیا ، کالم لکھ لیے بات کر لی بات ختم۔ اب کہنے والے کی شکل کو نشانہ بنانا ، اس کی شادی کو جانوروں کی شادی سے تشبیہ دینا ، اس کی اولاد پر تبصرے کرنا یہ سب کیسے جائز ہوا؟ایک طرف امر واقع کی اطلاع ہے اور دوسری طرف غیبت اور بہتان۔ نہی عن المنکر میں بہتان کی ضرورت کب پڑتی ہے ؟ یہاں کون اتنا معصوم ہے کہ انوسٹی گیٹو جرنلزم اور ییلو جرنلزم میں فرق نہ کر سکے ؟
آپ کا وقت دینے کے لیے شکریہ ، شاید سرسری مثالوں کے باوجود میں ’ذاتی تبصروں‘ کی وضاحت نہیں کر پائی، اسی لیے غلط فہمی ہو رہی ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ میں ان مثالوں کو سرسری ہی رہنے دینا چاہتی ہوں ، اگر تفصیلی مثالیں دیں تو میرا ’اخلاقی شپ ‘ ڈوب جائے گا۔ پھر اس تحریر پر خواتین کے تبصرے آنا تو درکنار میرا دیکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔
  1. بہر حال میں آپ کا نقطہ نظر سمجھ چکی ہوں ،
  2. میرا مقصد وہ نہیں تھا جو آپ نے سمجھا۔
  3. مجھے مسئلہ جنریشن گیپ کا لگ رہا ہے ۔
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور​
  1. بہت بہت شکریہ
  2. شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ ذاتی تبصروں کی وضاحت نہیں کرپائیں :)
  3. اگر آپ نے پاؤ صدی کی سرحد پار نہ کی ہوتی تو شاید ایسا کہنا درست ہوتا کہ ع ’میں‘ نصف صدی کا قصہ ہوں، دوچار برس کی بات نہیں :) البتہ یہ ”کمیو نی کیشن گیپ“ کا مسئلہ ضرور ہے :)
سدا خوش رہئے۔
 
دنیا مین انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک عام لوگ، عوام الناس جیسے میں اور آپ۔ ایسے عام لوگوں کے ”ذاتی معاملات“ میں تجسس کرنا بھی گناہ ہے اور اگر ایسے عام لوگوں کے عیوب ہمیں معلوم بھی ہوجائیں تو ان کی پردہ پوشی کا حکم ہے۔ اور ان جیسے عام لوگوں سے ”ڈیلنگ“ ہو تو انہیں حکمت کے ساتھ اُن کے ”بُرے اعمال“ پر اُن کی توجہ دلائی جائے تاکہ اُن تک حق بات پہنچانے کا ”فریضہ“ بھی ادا ہوجائے اور اُن کی معاشرتی تذلیل بھی نہ ہو اور نہ ہی اُن کی عزت نفس مجروح ہو۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے پیش نظر صرف اور صرف ایسے افراد ہیں۔ اس حوالہ سے آپ کی ساری باتیں، دکھ اور تشویش بے جا نہیں بلکہ بجا ہیں۔
”عوامی شخصیات“ کا معاملہ جدا ہے۔ اگر یہ پاورلَس بھی ہوں جیسے مشہورکھلاڑی، مشہور اداکار وغیرہ تب بھی ان کی زندگی اور طرز زندگی کی چھاپ عوام الناس پر وسیع پیمانے پر پڑتےی ہے۔ یہ جیسے کپڑے پہنیں وہ فیشن بن کر ”قبول عام“ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے خواہ وہ فیشن شرعی ہویا غیر شرعی۔ یہ جس برانڈ کی مصنوعات کو استعمال کریں (بطور ماڈل)، ان مصنوعات کا چلن معاشرے مین تیزی سے پھیلنے لگتا ہے، خواہ وہ برانڈ بذات کود ”غیر اسلامی“ ہو یا اس کی آمدن اسلام اور عالم اسلام کے خلاف استعمال ہورہی ہو۔ اگر عوامی شخصیات ”اقتدار کے ایوانوں“ سے تعلق رکھتی ہوں تو یہ دو آتشہ اور کریلہ پہ نیم چڑھا کے مترادف ہوتی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی با اقتدارعوامی شخصیات کے غیر اخلاقی اسکینڈلز کو میڈیا کے ذریعہ عوام کے سامنے لایا جاتا ہے اور لایا جانا چاہئے۔ اب اسی ”علامہ صاحب“ کی مثال لے لیں جو دارالاسلام (یا دارالمسلم) سے دارالکفر ”ہجرت“ کر جاتے ہیں۔ ایک کافر ملک کی شہریت لیتے ہوئے یہ حلف اٹھاتے ہی کہ اگر ان کے اس ”نئے ملک“ کا ان کےسابقہ ملک سے کبھی
کسی جنگ میں آمنا سامنا ہوا تو وہ اپنے اس نئے ملک کا ساتھ دیں گے۔ موصوف قبل ازیں اپنے خوابوں کے ذریعہ قوم کو جو کچھ بتلا چکے ہیں، وہ آپ سے پوشیدہ ہرگز نہیں ہے۔ اس ”پس منظر کا حامل“ اگر کوئی علامہ اچانک پاکستان آن کر لاکھوں عوام کے سامنے حلف اٹھا کر اپنی ”پارسائی“ کا اعلان کرتا ہے تو کیا میڈیا کا فریضہ نہیں ہے کہ وہ ایسے لیڈر کا کچا چٹھا عوام کے سامنے کھولنا شروع کر دے۔

صرف ایک مثال : ایک مقبول عام قصہ ۔۔۔ ایک گدھے اور شیرنی کی شادی ہو گئی ۔۔۔ اور پھر یہ ایک خاتون سیاست دان پر چسپاں کرنا ؟ سیاست دانوں کی شکل پر کسی کا دھڑ لگا کر سیاسی مخالفین کو تنگ کرنے کی کوشش کرنا ؟ ہم میں سے کوئی اپنی بیٹی کے لیے یہ پسند کرتا ہے ؟ یہ اسلامی محاسبہ ہے ؟
(×) اس قسم کی غیر اخلاقی یا بدزبانی کی تو عام انسانی اقدار میں بھی اجازت نہیں ہے۔ اسلام سختی سے ایسے رویوں کو رد کرتا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ اس قسم کے نازیبا جملے یا تمثیل کبھی ذمہ دار میڈیا پرسنز ”تخلیق“ نہیں کرتے۔ اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ سوشیل میڈیا تک رسائی رکھنے کے باوجود بہت اچھے ذاتی کردار کے مالک نہیں ہوتے۔
جی نہیں میں انہی عوامی شخصیات کی بات کر رہی ہوں ۔ یہ مغرب کا معیار ہے کہ پبلک سلیبرٹی از پبلک پراپرٹی ۔ ہمارا یہ معیار کب سے ہو گیا؟ کوئی شرعی حکم ہے ایسا کہ ’مشہور انسان کی عزت سب پر حلال ہے ؟‘
شوبز ایکٹرز، ایکٹریسز، سیاست دان ، علامہ صاحبان کے متعلق امر واقعہ ضرور کہیے ، ان کو امر بالمعروف کیجیے ، نہی عن المنکر کیجیے ۔ ان کی شکل پر تبصرے نہ کریں، ان کا نام نہ بگاڑیں ، ان پر تہمت اور بہتان نہ لگائیں ۔ یہ مطلب تھا۔ ان کی ذاتی عزت ہے اور بالکل اسی طرح ہم پر حرام ہے جیسے ہماری آپ کی ۔
صرف ایک مثال : ایک مقبول عام قصہ ۔۔۔ ایک گدھے اور شیرنی کی شادی ہو گئی ۔۔۔ اور پھر یہ ایک خاتون سیاست دان پر چسپاں کرنا ؟ سیاست دانوں کی شکل پر کسی کا دھڑ لگا کر سیاسی مخالفین کو تنگ کرنے کی کوشش کرنا ؟ ہم میں سے کوئی اپنی بیٹی کے لیے یہ پسند کرتا ہے ؟ یہ اسلامی محاسبہ ہے ؟
(×) اس قسم کی غیر اخلاقی یا بدزبانی کی تو عام انسانی اقدار میں بھی اجازت نہیں ہے۔ اسلام سختی سے ایسے رویوں کو رد کرتا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ اس قسم کے نازیبا جملے یا تمثیل کبھی ذمہ دار میڈیا پرسنز ”تخلیق“ نہیں کرتے۔ اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ سوشیل میڈیا تک رسائی رکھنے کے باوجود بہت اچھے ذاتی کردار کے مالک نہیں ہوتے۔
میں نے ذمہ دار میڈیا پرسنز کی بات کب کی ؟ اگر چہ باقاعدہ صحافیوں کی حرکتوں کے لیے الگ موضوع کھولا جا سکتا ہے لیکن یہاں ہم سوشل میڈیا کی، یعنی اپنی بات کر رہے ہیں ۔ میں نے عام ارکان کے دھاگے میں ہی یہ قصہ پڑھا ہے ۔ یہیں انہی اردو فورمز پر ، کسی کھلاڑی کی طلاق کی خبر، کسی شوبز ایکٹریس کی طلاق پر لوگوں کو بغلیں بجاتے دیکھا ہے ۔ اس میں کون سا نہی عن المنکر تھا ؟
 
اور سوشل میڈیا پر ہم اپنے لیے خود ضابطہ طے کر لیں تو کیسا ہے ؟
جی ہاں میرا خیال ہے ہمارے ہاں کا میڈیا ابھی چھوٹے بچے کی مانند ہے۔ اس کو تمییز سکھانے میں وقت لگے گا۔
یقینا جس طرح ہر ادارے کے بعض حدود ہوتے ہیں میڈیا کے بھی حدود طے ہونے چاہیے۔ چاہے وہ سوشل میڈیا ہو یا کوئی اور میڈیا۔
سیاستدانوں پر نقدوتنقید یقینا عوام کا حق ہے، لیکن یہ کام اچھے اور مہذب طریقے سے بھی ہو سکتا ہے۔
یہ کہاں کا طریقہ ہے کہ کسی بھی ساستدان کو گالی دے کر ہم اپنی زبان کو گندی کر لیں۔
 

یوسف-2

محفلین
  1. جی نہیں میں انہی عوامی شخصیات کی بات کر رہی ہوں ۔ یہ مغرب کا معیار ہے کہ پبلک سلیبرٹی از پبلک پراپرٹی ۔ ہمارا یہ معیار کب سے ہو گیا؟ کوئی شرعی حکم ہے ایسا کہ ’مشہور انسان کی عزت سب پر حلال ہے ؟‘
  2. شوبز ایکٹرز، ایکٹریسز، سیاست دان ، علامہ صاحبان کے متعلق امر واقعہ ضرور کہیے ، ان کو امر بالمعروف کیجیے ، نہی عن المنکر کیجیے ۔ ان کی شکل پر تبصرے نہ کریں، ان کا نام نہ بگاڑیں ، ان پر تہمت اور بہتان نہ لگائیں ۔ یہ مطلب تھا۔ ان کی ذاتی عزت ہے اور بالکل اسی طرح ہم پر حرام ہے جیسے ہماری آپ کی ۔
  3. یہاں ہم سوشل میڈیا کی، یعنی اپنی بات کر رہے ہیں ۔ میں نے عام ارکان کے دھاگے میں ہی یہ قصہ پڑھا ہے ۔ یہیں انہی اردو فورمز پر ، کسی کھلاڑی کی طلاق کی خبر، کسی شوبز ایکٹریس کی طلاق پر لوگوں کو بغلیں بجاتے دیکھا ہے ۔ اس میں کون سا نہی عن المنکر تھا ؟
  1. چلیں یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے وضاحت کردی کہ آپ ”عوامی شخصیات“ کے حوالہ سے ہی بات کر رہی ہیں۔ لیکن ’مشہور انسان کی عزت سب پر حلال ہے ؟‘ ایک مبہم فقرہ ہے یا کم از کم اس کے مفہوم میں خاصی ”وسعت“ ہے۔ یہ تو بالکل درست ہے کہ نام بگاڑنا، تہمت یا بہتان لگانا غلط بات ہے۔ لیکن جب میڈیا یا سوشیل میڈیا عوامی شخصیات سے متعلق ”امر واقعہ“ (مالی کرپشن، جنسی اسکیندل، بدکرداری وغیرہ) کو بھی اُچھالتا ہے تو عوامی شخصیات اور ان کے حامی یہی کہتے ہیں کہ ہماری عزت پر ہاتھ ڈالا جارہا ہے۔ اُن کی بدکرداریوں پر مبنی امرواقعہ کو اُچھال کربھی درحقیقت انہیں ”بے عزت“ ہی کیا جارہا ہوتا ہے۔ جب تک اُن کے سیاہ کارنامے پوشیدہ رہتے ہیں، وہ ”عزت دار“ ہی کہلائے جاتے ہیں۔ لہٰذا ”کمیونیکیشن گیپ“ کو ختم کرنے کے لئے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیجئے کہ : خواہ کوئی فرد بُرا ہی کیوں نہ ہو،اُس کی شکل پر تبصرے کرنا، اُس کا نام بگاڑنا، تہمت یا بہتان لگانا (اس فہرست مین مزید اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے) غلط اور غیر شرعی بات ہے۔
  2. اصل میں آپ نے بعض محفلین کے چند مخصوص متذکرہ بالاغلط حرکات کو ”جنرلائز“ کردیا تھا جس سے پورے میڈیا یا سوشیل میڈیا کی رپورٹنگ اور تنقید پر زد پڑنے لگی تھی، حالانکہ آپ کا ایسا مقصد نہ تھا۔ اگر آپ حوالہ کے ساتھ ٹو دی پوائنٹ بات کرتیں تو شاید اتنی ”غلط فہمیاں“ نہ پھیلتیں اورنہ ہی ہم دونوں کا وقت ”ضائع“ ہوتا :)
 
Top