سلامتی کا راستہ (سید مودودی)

شکیل احمد

محفلین
سلامتی کا راستہ
صاحبو، اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ بازار میں ایک دوکان ایسی ہے جس کا کوئی دکاندار نہیں ہے، نہ کوئی اس میں مال لانے والا ہے، نہ بیچنے والا ہے اور نہ کوئی اس کی رکھوالی کرتا ہے، دوکان خود بخود چل رہی ہے، خود بخود اس میں مال آ جاتا ہے اور خود بخود خریداروں کے ہاتھوں فروخت ہو جاتا ہے، تو کیا آپ اس شخص کی بات مان لیں گے؟ کیا آپ تسلیم کر لیں گے کہ کسی دوکان میں مال لانے والے کے بغیر خود بخود بھی مال آ سکتا ہے؟ مال بیچنے والے کے بغیر خود بخود فروخت بھی ہو سکتا ہے؟ حفاظت کرنے والے کے بغیر خود بخود چوری، لوٹ سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے؟ اپنے دل سے پوچھئے، ایسی بات آپ کبھی مان سکتے ہیں؟ جس کے ہوش و حواس ٹھکانے ہوں کیا اس کی عقل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ کوئی دوکان دنیا میں ایسی بھی ہو گی؟
فرض کیجیے، ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ اس شہر میں ایک کارخانہ ہے جس کا نہ کوئی مالک ہے، نہ انجینئر، نہ مستری، سارا کارخانہ خودبخود قائم ہو گیا ہے، ساری مشینیں خود بن گئی ہیں، خود ہی سارے پرزے اپنی اپنی جگہ لگ گئے ہیں، خود ہی سب مشینیں چل رہی ہیں اور خود ہی ان میں سے عجیب عجیب چیزیں بن کر نکلتی رہتی ہیں، سچ بتائیے جو شخص آپ سے یہ بات کہے گا، آپ حیرت سے اس کا منہ نہ تکنے لگیں گے؟ آپ کو یہ شبہ نہ ہو گا کہ اس کا دماغ کہیں خراب تو نہیں ہو گیا ہے؟ کیا ایک پاگل کے سوا ایسی بیہودہ بات کوئی کہہ سکتا ہے؟
دور کی مثال چھوڑیے، یہ بجلی کا بلب جو آپ کے سامنے جل رہا ہے کیا کسی کے کہنے سے آپ یہ مان سکتے ہیں کہ روشنی اس بلب میں آپ سے آپ پیدا ہو جاتی ہے؟ یہ کرسی جو آپ کے سامنے رکھی ہے، کیا کسی بڑے سے بڑے فاضل فلسفی کے کہنے سے بھی آپ یہ باور کر سکتے ہیں کہ یہ خود بخود بن گئی ہے؟ یہ کپڑے جو آپ پہنے ہوئے ہیں، کیا کسی علامہ دہر کے کہنے سے بھی آپ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیارہو سکتے ہیں کہ ان کو کسی نہ بُنا نہیں ہے، یہ خودبخود بن گئے ہیں؟ یہ گھر جو آپ کے سامنے کھڑے ہیں، اگر تمام دنیا کی یونیورسٹیوں کے پروفیسری مل کر بھی آپ کو یقین دلائیں کہ ان گھروں کو کسی نے نہیں بنایا بلکہ یہ خود بخود بن گئے ہیں، تو کیا ان کے یقین دلانے سے آپ کو ایسی لغو بات پر یقین آ جائے گا؟
یہ چند مثالیں آپ کے سامنے کی ہیں۔ رات دن جن چیزوں کو آپ دیکھتے ہیں انہیں میں سے چند ایک میں نے بیان کی ہیں۔ اب غور کیجیے، ایک معمولی دوکان کے متعلق جب آپ کی عقل یہ نہیں مان سکتی کہ وہ کسی قائم کرنے والے کے بغیر چل رہی ہے، جب ایک ذرا سے کارخانے کے متعلق آپ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن جائے گا اور کسی چلانے والے کے بغیر چلتا رہے گا تو یہ زمین و آسمان کا زبردست کارخانہ جو آپ کے سامنے چل رہا ہے، جس میں چاند اور سورج اور بڑے بڑے ستارے گھڑی کے پرزوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں، جس میں سمندروں سے بھاپیں اٹھتی ہیں، بھاپوں سے بادل بنتے ہیں، بادلوں کو ہوائیں اڑا کر زمین کے کونے کونے میں پھیلاتی ہیں، پھر ان کو مناسب وقت پر ٹھنڈک پہنچا کر دوبارہ بھاپ سے پانی بنایا جاتا ہے، پھر وہ پانی بارش کے قطروں کی صورت میں زمین پر گرایا جاتا ہے، پھر اس بارش کی بدولت مردہ زمین کے پیٹ سے طرح طرح کے لہلہاتے ہوئے درخت نکالے جاتے ہیں، قسم قسم کے غلے، رنگ برنگ کے پھل اور وضع وضع کے پھول پیدا کیے جاتے ہیں، اس کارخانے کے متعلق آپ یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی بنانے والے کے بغیر خود بخود چل رہا ہے؟ ایک ذرا سی کرسی، ایک گز بھر کپڑے، ایک چھوٹی سی دیوار کے متعلق کوئی کہہ دے کہ یہ چیزیں خود بنی ہیں تو آپ فورًا فیصلہ کر دیں گے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ پھر بھلا اس شخص کے دماغ کی خرابی میں کیا شک ہو سکتا ہے جو کہتا ہے کہ زمین خود بن گئی، جانور خود پیدا ہو گئے، انسان جیسی حیرت انگیز چیز آپ سے آپ بن کر کھڑی ہو گئی؟
آدمی کا جسم جن اجزا سے مل کر بنا ہے ان سب کو سائینس دانوں نے الگ الگ کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کچھ کوئلہ، کچھ گندھک، کچھ فاسفورس، کچھ کیلشیم، کچھ نمک، چند گیسیں اور بس ایسی ہی چند اور چیزیں جن کی مجموعی قیمت چند روپوں سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ چیزیں جتنے جتنے وزن کے ساتھ آدمی کے جسم میں شامل ہیں، اتنے ہی وزن کے ساتھ انہیں لیجیے اور جس طرح جی چاہے ملا کر دیکھ لیجیے، آدمی کسی ترکیب سے نہ بن سکے گا۔ پھر کس طرح آپ کی عقل یہ مان سکتی ہے کہ ان چند بے جان چیزوں سے دیکھتا، سنتا، بولتا، چلتا، پھرتا انسان، جو ہوائی جہاز اور ریڈیو بناتا ہے، کسی کاریگر کی حکمت کے بغیر خود بخود بن جاتا ہے؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ ماں کے پیٹ کی چھوٹی سے فیکٹری میں کس طرح آدمی تیارہوتا ہے؟ باپ کی کارستانی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ماں کی حکمت کا اس میں کوئی کام نہیں۔ ایک ذرا سی تھیلی میں دو کیڑے جو خوردبین کے بغیر دیکھنے میں نہیں آ سکتے، نہ معلوم کب آپس میں مل جاتے ہیں، ماں کے خون ہی سے ان کو غذا پہنچنی شروع ہو جاتی ہے۔ وہیں سے لوہا، گندھک، فاسفورس وغیرہ تمام چیزیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ایک خاص وزن اور خاص نسبت کے ساتھ وہاں جمع ہو کر لوتھڑا بنتی ہیں۔ پھر اس لوتھڑے میں جہاں آنکھیں بننی چاہیئیں وہاں آنکھیں بنتی ہیں، جہاں کان بننے چاہیئیں وہاں کان بنتے ہیں، جہاں دماغ بننا چاہیے وہاں دماغ بنتا ہے، جہاں دل بننا چاہیے وہاں دل بنتا ہے۔
ہڈی اپنی جگہ، گوشت اپنی جگہ، غرض ایک ایک پرزہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھتا ہے۔ پھر اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ دیکھنے کی طاقت، سننے کی طاقت، چکھنے اور سونگھنے کی طاقت، بولنے کی طاقت، سوچنے اور سمجھنے کی طاقت، اور نہ جانے کتنی بے حدوحساب طاقتیں اس میں بھر جاتی ہیں۔ اس طرح جب انسان مکمل ہو جاتا ہے تو پیٹ کی وہی چھوٹی سی فیکٹری جہاں نو مہینے تک وہ بن رہا تھا، خود زور کر کے اسے باہر دھکیل دیتی ہے۔ اس فیکٹری سے ایک ہی طریقے پر لاکھوں انسان روز بن کر نکل رہے ہیں۔ مگر ہر ایک کا نمونہ جدا ہے، شکل جدا، رنگ جدا، آواز جدا، قوتیں اور قابلیتیں جدا، طبیعتیں اور خیالات جدا، اخلاق اور صفات جدا۔ ایک ہی ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے دو سگے بھائی تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ یہ ایک ایسا کرشمہ ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کرشمے کو دیکھ بھی جو شخص کہتا ہے کہ یہ کام کسی زبردست حکمت والے، زبردست قدرت والے، زبردست علم والے، اور بے نظیر کمالات والے اللہ کے بغیر ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے، یقینًا اس کا دماغ درست نہیں۔ اس کو عقلمند سمجھنا عقل کی توہین ہے۔ کم از کم میں تو ایسے شخص کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔
توحید
اچھا، اب ذرا اور آگے چلیے۔ آپ میں سے ہر شخص کی عقل اس بات کی گواہی دے گی کہ دنیا میں کوئی کام بھی، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کبھی باضابطگی و باقاعدگی کے بٖغیر نہیں چل سکتا جب تک کہ کوئی ایک شخص اس کا ذمہ دار نہ ہو۔ ایک مدرسہ کے دو ہیڈماسٹر، ایک محکمہ کے دو ڈائرکٹر، ایک فوج کے دو سپہ سالار، ایک سلطنت کے دو رئیس یا بادشاہ کبھی آپ نے سنے ہیں؟ اور کہیں ایسا ہو تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک دن کے لیے بھی انتظام ٹھیک ہو سکتا ہے؟ آپ اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اس کا تجربہ کرتے ہیں کہ جہاں کوئی کام ایک سے زیادہ آدمیوں کی ذمہ داری پر چھوڑا جاتا ہے وہاں سخت بدنظامی ہوتی ہے، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، اور آخر ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ کر رہتی ہے۔ انتظام، باقاعدگی، ہمواری اور خوش اسلوبی دنیا میں جہاں کہیں بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں لازمی طور پر کوئی ایک طاقت کرفرما ہوتی ہے، کوئی ایک ہی وجود بااختیار و اقتدار ہوتا ہے، اور کسی ایک کے ہاتھ میں سررشتہ ہوتا ہے۔ اس کے بغیر انتظام کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔
یہ ایسی سیدھی بات ہے کہ کوئی شخص جو تھوڑی سی بھی عقل رکھتا ہو اسے ماننے میں تامل نہ کرے گا۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر ذرا اپنے گردوپیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ یہ زبردست کائنات جو آپ کے سامنے پھیلی ہوئی ہے، یہ کروڑوں سیارے جو آپ کو گردش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ زمین جس پر آپ رہتے ہیں، یہ چاند جو راتوں کو نکلتا ہے، یہ سورج جو صبح کو طلوع ہوتا ہے، یہ زہرہ، یہ مریخ، یہ عطارد، یہ مشتری اور یہ دوسرے بےشمار تارے جو گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں، دیکھیے، ان سب کے گھومنے میں کیسی سخت باقاعدگی ہے کبھی رات اپنے وقت سے پہلےآتی ہوئی آپ نے دیکھی؟کبھی دن وقت سے پہلے نکلتےدیکھا؟ کبھی چاند زمین سے ٹکرایا؟ کبھی سورج اپنا راستہ چھوڑ کر ہٹا؟ کبھی کسی اور ستارے کو آپ نے ایک بال برابر بھی اپنی گردش کی راہ سے ہٹتے ہوئے دیکھا یا سنا؟ یہ کروڑہا سیارے جن میں سے بعض ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے ہیں اور بعض سورج سے بھی ہزاروں گنے بڑے، یہ سب گھڑی کے پرزوں کی طرح ایک زبردست ضابطے میں کسے ہوئے اور ایک بندھے ہوئے حساب کے مطابق اپنی اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ راستے پر چل رہے ہیں۔ نہ کسی کی رفتار میں ذرہ برابر فرق آتا ہے، نہ کوئی اپنے راستے سے بال برابر ٹل سکتا ہے۔ ان کے درمیان جو نسبتیں قائم کر دی گئی ہیں، اگر ان میں ایک پل کے لیے بھی ذرا سا فرق آ جائے تو سارا نطامِ عالم برہم ہو جائے، جس طرح ریلیں ٹکراتی ہیں اسی طرح سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔
یہ تو آسمان کی باتیں ہیں۔ ذرا اپنی زمین اور اپنی ذات پر نظر ڈال کر دیکھیے۔ اس مٹی کی گیند پر یہ سارا زندگی کا کھیل جو آپ دیکھ رہے ہیں، یہ سب چند بندھے ہوئے ضابطوں کی بدولت قائم ہے۔ زمین کی کشش نے ساری چیزوں کو اپنے حلقے میں باندھ رکھا ہے۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اگر وہ اپنی گرفت چھوڑ دے تو سارا کارخانہ بکھر جائے، اس کارخانے میں جتنے کل پرزے کام کر رہے ہیں، سب کے سب ایک قاعدے کے پابند ہیں اور اس قاعدے میں کبھی فرق نہیں آیا۔ ہوا اپنے قاعدے کی پابندی کر رہی ہے، پانی اپنے قاعدے میں بندھا ہوا ہے، روشنی کے لیے جو قاعدہ ہے اس کی وہ مطیع ہے، گرمی اور سردی کے لیے جو ضابطہ ہے اس کی وہ غلام ہے۔ مٹی پتھر، دھاتیں، بجلی، اسٹیم، درخت، جانور، کسی میں یہ مجال نہیں کہ اپنی حد سے بڑھ جائے یا اپنی خاصیتیوں کو بدل دے یا اس کام کو چھوڑ دے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ پھر اپنی حد کے اندر، اپنے ضابطہ کی پابندی کرنے کے ساتھ اس کارخانے کے سارے پرزے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، سب اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اور ساری قوتیں مل کر کام کر رہی ہیں۔
ایک ذرا سے بیج کی ہی مثال لے لیجیے جس کو آپ زمین میں بوتے ہیں۔ وہ کبھی پرورش پا کر درخت بن ہی نہیں سکتا جب تک زمین اور آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کی پرورش میں حصہ نہ لیں۔ زمین اپنے خزانوں سے اس کو غذا دیتی ہے، سورج اس کی ضرورت کے مطابق اسے گرمی پہنچاتا ہے، پانی سے جو کچھ وہ مانگتا ہے وہ پانی دیتا ہے، ہوا سے جو کچھ وہ طلب کرتا ہے وہ ہوا دیتی ہے، راتیں اسے ٹھنڈک اور اوس بہم پہنچاتی ہیں، دن اسے گرمی پہنچا کر پختگی کی طرف لے جاتے ہیں، اس طرح مہینوں اور برسوں تک مسلسل ایک باقاعدگی کے ساتھ یہ سب مل جل کر اسے پالتے پوستے ہیں، تب جا کر کہیں درخت بنتا ہے اور اس میں پھل آتے ہیں۔ آپ کی یہ ساری فصلیں جن کے بل بوتے پر آپ جی رہے ہیں، انہی بےشمار مختلف قوتوں کے بالاتفاق کام کرنے ہی کی وجہ سے تیار ہوتی ہیں، بلکہ آپ خود زندہ اسی وجہ سے ہیں کہ زمین اور آسمان کی تمام طاقتیں متفقہ طور پر آپ کی پرورش میں لگی ہوئی ہیں۔
اگر تنہا ایک ہوا ہی اس متفقہ کاروبار سے الگ ہو جائے تو آپ ختم ہو جائیں۔اگر پانی ہوا اور گرمی کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کر دے تو آپ پر بارش کا ایک قطرہ نہ برس سکے۔ اگر مٹی پانی کے ساتھ اتفاق کرنا چھوڑ دے تو آپ کے باغ سوکھ جائیں، آپ کی کھیتیاں کبھی نہ پکیں اور آپ کے مکان کبھی نہ بن سکیں۔ اگر دیا سلائی کی رگڑ سے آگ پیدا ہونے پر راضی نہ ہو تو آپ کے چولہے ٹھنڈے ہو جائیں اور آپ کے سارے کارخانے یک لخت بیٹھ جائیں، اگر لوہا آگ کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کر دے تو آپ ریلیں اور موٹریں تو درکنار ایک سوئی اور چھری تک نہ بنا سکیں۔ غرض یہ ساری دنیا جس میں آپ جی رہے ہیں، یہ صرف اسی وجہ سے قائم ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے سارے محکمے کے کسی اہل کار کی یہ مجال نہیں ہے کہ اپنی ڈیوٹی سے ہٹ جائے یا ضابطہ کے مطابق دوسرے محکموں کے اہل کاروں سے اشتراکِ عمل نہ کرے۔
یہ جو کچھ میں آپ سے بیان کیا ہے، کیا اس میں کوئی بات جھوٹ یا خلافِ واقعہ ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی بھی اسے جھوٹ نہ کہے گا۔ اچھا، اگر یہ سچ ہے تو مجھے بتائیے کہ یہ زبردست انتظام، یہ حیرت انگیز باقاعدگی، یہ کمال درجہ کی ہمواری، یہ زمین و آسمان کی بے حدوحساب چیزوں اور طاقتوں میں کامل موافقت آخر کس وجہ سے ہے؟ کروڑوں برس سے یہ کائنات یونہی قائم چلی آ رہی ہے، لکھوکھا سال سے اس زمین پر درخت اگ رہے ہیں، جانور پیدا ہو رہے ہیں، اور نہ معلوم کب سے انسان اس زمین پر جی رہا ہے۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ چاند زمین پر گر جاتا یا زمین سورج سے ٹکرا جاتی، کبھی رات اور دن کے حساب میں فرق نہ آیا، کبھی ہوا کے محکمے کی پانی کے محکمے سے لڑائی نہ ہوئی۔ کبھی پانی مٹی سے نہ روٹھا، کبھی گرمی نے آگ سے رشتہ نہ توڑا۔ آخر اس سلطنت کے تمام صوبے، تمام محکمے، تمام ہرکارے اور کارندے کیوں اس طرح قانون اور ضابطے کی پابندی کیے چلے جا رہے ہیں؟ کیوں ان میں لڑائی نہیں ہوتی؟ کیوں فساد برپا نہیں ہوتا؟ کس چیز کی وجہ سے یہ سب ایک انتظام میں بندھے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھیے۔ کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ ایک ہی اللہ اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے، ایک ہی ہے جس کی زبردست طاقت نے سب کو اپنے ضابطے میں باندھ رکھا ہے؟ اگر دس بیس نہیں دو الٰہ بھی اس کائنات کے مالک ہوتے تو یہ انتظام اس بإقاعدگی کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ ایک ذرا سے مدرسے کا انتظام تو دو ہیڈماسٹروں کی ہیڈماسٹری برداشت نہیں کر سکتا، پھر بھلا اتنی بڑی زمین و آسمان کی سلطنت دو خداؤں کی خدائی میں کیسے چل سکتی تھی؟
پس واقعہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ دنیا کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بنی ہے، بلکہ یہ بھی واقعہ ہے کہ اس کا ایک ہی نے بنایا ہے، حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اس دنیا کا انتظام کسی حاکم کے بغیر نہیں چل رہا ہے، بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ حاکم ایک ہی ہے۔ انتظام کی باقاعدگی صاف کہہ رہی ہے کہ یہاں ایک کے سوا کسی کے ہاتھ میں حکومت کے اختیارات نہیں ہیں۔ ضابطہ کی پابندی منہ سے بول رہی ہے کہ اس سلطنت میں ایک حاکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ قانون کی سخت گیری شہادت دے رہی ہے کہ ایک ہی بادشاہ کی حکومت زمین سے آسمان تک قائم ہے۔ چاند، سورج اور سیارے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ زمین اپنی تمام چیزوں کے ساتھ اسی کے تابع فرمان ہے۔ ہوا اسی کی غلام ہے، پانی اسی کا بندہ ہے، دریا اور پہاڑ اسی کے اختیار میں ہیں، درخت اور جانور اسی کے مطیع ہیں، انسان کا جینا اور مرنا اسی کے اختیار میں ہے، اس کی مضبوط گرفت نے سب کو پوری قوت کے ساتھ جکڑ رکھا ہے، کوئی اتنا زور نہیں رکھتا کہ اس کی حکومت میں اپنا حکم چلا سکے۔
درحقیقت اس مکمل تنظیم میں ایک سے زیادہ حاکموں کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ تنظیم کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ حکم میں ایک شمہ برابر بھی کوئی دوسرا حصہ دار نہ ہو۔ تنہا ایک حاکم ہو اور اس کے سوا سب محکوم ہوں کیونکہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں فرماں روائی کے ادنٰی سے اختیارات ہونے کے معنی بھی بدنظمی اور فساد کے ہیں۔ حکم چلانے کے لیے صرف طاقت ہی درکار نہیں ہے، علم بھی درکار ہے۔ اتنی وسیع نظر درکار ہے کہ تمام کائنات کو بیک وقت دیکھ سکے اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ کر احکام جاری کر سکے۔اگر خداوندِ عالم کے سوا کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ایسے ہوتے جو نگاہ جہاں بیں تو نہ رکھتے، لیکن انہیں دنیا کے کسی حصے یا کسی معاملہ میں اپنا حکم چلانے کا اختیار حاصل ہوتا تو یہ زمین و آسمان کا سارا کارخانہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ جانتے ہیں کہ اگر کسی ایسے شخص کو اس میں دخل اندازی کا اختیار دے دیا جائے جو اس سے پوری طرح واقف نہ ہو تو وہ اسے بگاڑ کر رکھ دے گا۔ لہٰذا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے اور زمین و آسمان کے نظامِ سلطنت کا انتہائی باضابطگی کے ساتھ چلنا اس کی گواہی دیتا ہے کہ اس سلطنت کے اختیاراتِ شاہی میں ایک اللہ سوا کسی کا ذرہ برابر حصہ نہیں ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ ہی نہیں ہے، حق یہ ہے کہ اللہ کی خدائی میں خود اللہ کے سوا کسی کا حکم چلنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔جن کو اس نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے، جو اس کی مخلوق ہیں، جن کی ہستی اس کی عنایت پر قائم ہے، جو اس سے بےنیاز ہو کر خود اپنے بل بوتے پر ایک لمحہ کے لیے بھی موجود نہیں رہ سکتے، ان میں سے کسی کی یہ حیثیت کب ہو سکتی ہے کہ خدائی میں اس کا حصہ دار بن جائے؟ کیا کسی نوکر کو آپ نے ملکیت میں آقا کا شریک ہوتے دیکھا ہے؟ کیا آپ کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ کوئی مالک اپنے غلام کو اپنا ساجھی بنا لے؟ کیا خود آپ میں سے کوئی شخص اپنے ملازموں میں سے کسی کو اپنی جائیداد میں یا اپنے اختیارات میں حصہ دار بناتا ہے؟ اس بات پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ اللہ کی اس سلطنت میں کسی بندے کو خودمختارانہ فرماں روائی کا کوئی حق حاصل ہی نہیں ہے۔ ایسا ہونا نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے، نہ صرف عقل اور فطرت کے خلاف ہے، بلکہ حق کے خلاف بھی ہے۔
 

شکیل احمد

محفلین
انسان کی تباہی کا اصلی سبب
صاحبو، یہ بنیادی حقیقتیں ہیں جن پر اس دنیا کا پورا نظام چل رہا ہے۔ آپ اس دنیاسے الگ نہیں ہیں بلکہ اس کے اندر اس کے ایک جز کی حیثیت سے رہتے ہیں، لہٰذا آپ کی زندگی کے لیے بھی یہ حقیقتیں اسی طرح بنیادی ہیں جس طرح کُل جہان کے لیے ہیں۔
آج یہ سوال آپ میں سے ہر شخص کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک پریشان کن گتھی بنا ہوا ہے کہ آخر ہم انسانوں کی زندگی سے امن چین کیوں رخصت ہو گیا؟ کیوں آئے دن مصیبتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں؟ کیوں ہماری زندگی کی کَل بگڑ گئی ہے؟ قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں، ملک ملک میں کھینچا تانی ہو رہی ہے، آدمی آدمی کے لیے بھیڑیا بن گیا ہے، لاکھوں انسان لڑائیوں میں برباد ہو رہے ہیں، کروڑوں اور اربوں کے کاروبار غارت ہو رہے ہیں، بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں، طاقت ور کمزوروں کو کھائے جاتے ہیں، مالدار غریبوں کو لوٹے لیتے ہیں، حکومت میں ظلم ہے، عدالت میں بے انصافی ہے، دولت میں مستی ہے، اقتدار میں غرور ہے، دوستی میں بے وفائی ہے، امانت میں خیانت ہے، اخلاق میں راستی نہیں رہی، انسان پر سے انسان کا اعتماد اٹھ گیا ہے، مذہب کے جامے میں لامذہبی ہو رہی ہے، آدم کے بچے لاتعداد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر گروہ دوسرے گروہ کو دغا، ظلم، بے ایمانی، ہرممکن طریقہ سے نقصان پہنچانا کارِ ثواب سمجھ رہا ہے۔ یہ ساری خرابیاں آخر کس وجہ سے ہیں؟ خدا کی خدائی میں اور جس طرف بھی ہم دیکھتے ہیں امن ہی امن نظر آتا ہے۔ ستاروں میں امن ہے، ہوا میں امن ہے، پانی میں امن ہے، درختوں اور جانوروں میں امن ہے، تمام مخلوقات کا انتظام پورے امن کے ساتھ چل رہا ہے، کہیں فساد، بدنظمی کا نشان نہیں پایا جاتا، مگر ایک انسان ہی کی زندگی کیوں اس نعمت سے محروم ہو گئی؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جسے حل کرنے میں لوگوں کو سخت پریشانی پیش آ رہی ہے، مگر میں پورے اطمینان کے ساتھ اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ:
“آدمی نے اپنی زندگی کو حقیقت اور واقعہ کے خلاف بنا رکھا ہے اس لیے وہ تکلیف اٹھا رہا ہے اور جب تک وہ پھر اسے حقیقت کے مطابق نہ بنائے گا کبھی چین نہ پا سکے گا”
آپ چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ بیٹھیں اور اسے کھول کر بے تکلف اس طرح باہر نکل آئیں جیسے اپنے مکان کے صحن میں قدم رکھ رہے ہیں تو آپ کی اس غلط فہمی سے نہ ریل کا دروازہ گھر کا دروازہ بن جائے گا اور نہ وہ میدان جہاں آپ گریں گے، گھر کا صحن ثابت ہو گا۔ آپ کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت ذرا بھی نہ بدلے گی۔ تیز دوڑتی ہوئی ریل کے دروازے سے جب آپ باہر تشریف لائیں گے تو اس کا جو نتیجہ ظاہر ہونا ہے وہ ظاہر ہو کر ہی رہے گا، خواہ ٹانگ اور سر پھٹنے کے بعد بھی آپ یہ تسلیم نہ کریں کہ آپ نے جو کچھ سمجھا تھا غلط سمجھا تھا۔
بالکل اسی طرح اگر آپ یہ سمجھ بیٹھیں کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، یا آپ خود اپنے خدا بن بیٹھیں، یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان لیں، تو آپ کے ایسا سمجھنے یا مان لینے سے حقیقت ہرگز نہ بدلے گی۔ خدا خدا ہی رہے گا۔ اس کی زبردست سلطنت جس میں آپ محض رعیت کی حیثیت سے رہتے ہیں، پورے اختیارات کے ساتھ اسی کے قبضہ میں رہے گی۔ البتہ آپ اپنی غلط فہمی کی وجہ سے جو طرز زندگی اختیار کریں گے اس کا نہایت برا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا، خواہ آپ تکلیفیں اٹھانے کے بعد بھی اپنی اس غلط زندگی کو بجائے خود صحیح ہی سمجھتے رہیں۔
پہلے میں جو کچھ بیان کر چکا ہوں اسے ذرا اپنی یاد میں پھر تازہ کر لیجیے۔ خداوند عالم کسی کے بنائے سے خداوند عالم نہیں بنا ہے۔ وہ اس کا محتاج نہیں ہے کہ آپ اس کی خدائی مانیں تو وہ خدا ہو گا۔ آپ خواہ مانیں یا نہ مانیں وہ تو خود خدا ہے۔ اس کی خدائی خود اپنے زور پر قائم ہے۔ اس نے آپ کو اور اس دنیا کو خود بنایا ہے۔ یہ زمین، یہ چاند اور سورج، اور یہ ساری کائنات اسی کے حکم کی تابع ہے۔ اس کائنات میں جتنی قوتیں کام کر رہی ہیں سب اسی کے زیرِ حکم ہیں۔ وہ ساری چیزیں جن کے بل پر آپ زندہ ہیں، اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ خود آپ کا اپنا وجود اس کے اختیار میں ہے۔ اس واقعہ کو آپ کسی طرح بدل نہیں سکتے۔ آپ اس کو مانیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس سے آنکھیں بند کر لیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس کے سوا کچھ اور سمجھ بیٹھیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ ان سب صورتوں میں واقعہ کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ البتہ فرق یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ اس واقعہ کو تسلیم کر کے اپنی وہی حیثیت قبول کر لیں جو اس واقعہ کے اندر دراصل آپ کی ہے تو آپ کی زندگی درست ہو گی۔ آپ کو چین ملے گا، اطمینان نصیب ہو گا، اور آپ کی زندگی کی ساری کل ٹھیک چلے گی۔ اور اگر آپ نے واقعہ کے خلاف کوئی اور حیثیت اختیار کی تو انجام وہی ہو گا جو چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ کر قدم باہر نکالنے کا ہوتا ہے۔ چوٹ آپ خود کھائیں گے، ٹانگ آپ کی ٹوٹے گی، سر آپ کا پھٹے گا، تکلیف آپ کو ہو گی، واقعہ جیسا تھا ویسا ہی رہے گا۔
ہماری صحیح حیثیت
آپ سوال کریں گے کہ اس واقعہ کے مطابق ہماری صحیح حیثیت کیا ہے؟میں چند لفظوں میں اس کی تشریح کیے دیتا ہوں۔ اگر کسی نوکر کو آپ تنخواہ دے کر پال رہے ہوں تو بتائیے اس نوکر کی اصلی حیثیت کیا ہے؟ یہی نا کہ آپ کی نوکری بجا لائے، آپ کے حکم کی اطاعت کرے، آپ کی مرضی کے مطابق کام کرے اور نوکری کی حد سے نہ بڑھے، نوکر کا کام آخر نوکری کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ اگر افسر ہوں اور کوئی آپ کا ماتحت ہو تو ماتحت کا کام کیا ہے؟ یہی نا کہ وہ ماتحتی کرے، افسری کی ہوا میں نہ رہے۔ اگر آپ کسی جائیداد کے مالک ہوں تو اس جائیداد میں آپ کی خواہش کیا ہو گی؟ یہی نا کہ اس میں آپ کی مرضی چلے، جو کچھ آپ چاہیں وہی ہو اور آپ کی مرضی کے خلاف پتا نہ ہل سکے۔ آپ پر اگر کوئی بادشاہی نظام مسلط ہواور تمام قوتیں اس کے ہاتھ میں ہوں تو ایسی بادشاہی کی موجودگی میں آپ کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟ یہی نا کہ آپ سیدھی طرح رعیت بن کر رہنا قبول کریں اور شاہی قانون کی فرمانبرداری سے قدم باہر نہ نکالیں۔ بادشاہ کی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے اگر آپ خود اپنی بادشاہی کا دعوٰی کریں گے یا کسی دوسرے کی بادشاہی مان کر اس کے حکم پر چلیں گے تو آپ باغی ہوں گے اور باغی کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔
ان مثالوں سے آپ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کی اس سلطنت میں آپ کی اصلی حیثیت کیا ہے؟
آپ کو اس نے بنایا ہے، قدرتی طورپر آپ کاکائی کام اس کے سوا نہیں ہے کہ اپنے بنانے والے کی مرضی پر چلیں۔
آپ کو وہ پال رہا ہے اور اسی کے خزانے سے آپ تنخواہ لے رہے ہیں، آپ کی کوئی حیثیت اس کے سوا نہیں ہے کہ آپ اس کے نوکر ہیں۔
آپ کا اور ساری دنیا کا افسر وہ ہے۔ اس کی افسری میں آپ کی حیثیت ماتحتی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
یہ زمین و آسمان سب اس کی جائیداد ہیں۔ اس جائیداد میں اس کی مرضی چلے گی اور چلنی چاہیے۔ آپ کو یہاں اپنی مرضی چلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اپنی مرضی چلانے کی کوشش کریں گے تو منہ کی کھائیں گے۔
اس سلطنت میں اس کی بادشاہی اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ زمین اور آسمان کے سارے محکمے اس کے قبضہ میں ہیں۔ آپ خود چاہیے راضی ہوں یا نارا، بہرحال اس کی رعیت ہیں۔ آپ کی اور کسی انسان کی بھی، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کوئی دوسری حیثیت رعیت ہونے کے سوا نہیں ہے۔ اسی کا قانون اس سلطنت میں قانون ہے اور اسی کا حکم ہے۔ رعیت میں سے کسی کو یہ دعوٰی کرنے کا حق نہیں ہے کہ میں ہزمیجسٹی ہوں، یا ہز ہائی نس ہوں، یا ڈکٹیٹر اور خودمختار ہوں۔ نہ کسی شخص یا پارلیمنٹ یا اسمبلی یا کونسل کو اختیار حاصل ہے کہ اس سلطنت میں خدا کے بجائے خود اپنا قانون بنائے اور خدا کی رعیت سے کہے کہ ہمارے اس قانون کی پیروی کرو۔نہ کسی انسانی حکومت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ خدا کے حکم سے بےنیاز ہو کر خود حکم چلائے اور خدا کے بندوں سے کہے کہ ہمارے اس حکم کی اطاعت کرو۔ نہ کسی انسان یا انسانوں کے گروہ کے لیے یہ جائز ہے کہ اصلی بادشاہ کی رعیت بننے کے بجائے بادشاہی کے جھوٹے مدعیوں میں سے کسی کی رعیت بننا قبول کرے، اصلی بادشاہ کے قانون کو چھوڑ کر جھوٹے قانون سازوں کا قانون تسلیم کرے، اور اصلی حکمران سے منہ موڑ کر جھوٹ موٹ کی ان حکومتوں کا حکم ماننے لگے، یہ تمام صورتیں بغاوت کی ہیں۔ خود بادشاہی کے اختیارات کا دعوٰی کرنا، یا ایسے کسی مدعی کے دعوے کو قبول کرنا، دونوں حرکتیں رعیت کے لیے بغاوت کا حکم رکھتی ہیں اور اس کی سزا ان دونوں کو ملنی یقینی ہے، خواہ جلدی ملے یا دیر میں۔
آپ کی اور ایک ایک انسان کی پیشانی کے بال خدا کی مٹھی میں ہیں، جب چاہے پکڑ کر گھسیٹ لے۔ زمین اور آسمان کی اس سلطنت میں بھاگ جانے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔ آپ اس سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں لے سکتے، مٹی میں مل کر آپ کا ایک ایک ذرہ بھی اگر منتشر ہو جائے، آگ میں جل کر خواہ آپ کی راکھ ہوا میں پھیل جائے، پانی بہہ کر خواہ آپ مچھلیوں کی خوارک بنیں یا سمندر کے پانی میں گھل جائیں، ہر جگہ سے خدا آپ کو پکڑ لے گا۔ ہوا اس کی غلام ہے، زمین اس کی بندی ہے، پانی اور اس کی مچھلیاں سب اس کے حکم کی تابع ہیں، ایک اشارے پر سب طرف سے آپ پکڑے ہوئے آ جائیں گے اور پھر وہ آپ میں سے ایک ایک کو بلا کر پوچھے گا کہ میرے رعیت ہو کر بادشاہی (Sovereignty) کا دعوٰی کرنے کا تمہیں کہاں سے پہنچ گیا تھا؟ میرے ملک میں اپنا حکم چلانے کے اختیارات تم کہاں سے لائے تھے؟ میری سلطنت میں اپنا قانون جاری کرنے والے تم کون تھے؟ میرے بندے ہو کر دوسروں کی بندگی کرنے پر تم کیسے راضی ہو گئے؟ میرے نوکر ہو کر تم نے دوسروں کا حکم مانا، مجھ سے تنخواہ لے کردوسروں کو اَن داتا اور رازق سمجھا، میرے غلام ہو کر دوسروں کی غلامی کی، میرے بادشاہی میں رہتے ہوئے دوسروں کے قانون کو قانون سمجھا، اور دوسروں کے فرامین کی اطاعت کی۔ یہ بغاوت کس طرح تمہارے لیے جائز ہو گئی تھی؟ فرمائیے آپ میں سے کسی کے پاس اس الزام کا جواب ہے؟ کون سے وکیل صاحب وہاں اپنے قانونی داؤ پیچ سے بچاؤ کی صورت نکال سکیں گے؟ اور کون سے سفارش پر آپ بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ آپ کو اس بغاوت کے جرم کی سزا بھگتنے سے بچا لے گی؟
ظلم کی وجہ
صاحبو، یہاں صرف حق ہی کا سوال نہیں ہے۔ یہ سوال بھی ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کیا انسان بادشاہی یا قانون سازی یا حکمرانی کا اہل ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں، ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ یہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اناڑی شخص جو اس مشینری سے واقف نہ ہو، اسے چلائے گا تو بگاڑ دے گا۔ ذرا کسی ناواقف آدمی سے ایک موٹر ہی چلوا کر دیکھ لیجیے، ابھی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس حماقت کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اب ذرا خود سوچیے کہ لوہے کی ایک مشین کا حال جب یہ ہے کہ صحیح علم کے بغیر اس کو استعمال نہیں کیا جا سکتا تو انسان جس کے نفسیات انتہا درجہ کے پیچیدہ ہیں، جس کی زندگی کے معاملات بے شمار پہلو رکھتے ہیں اور ہر پہلو میں لاکھوں گتھیاں ہیں، اس کی پیچ در پیچ مشینری کو وہ لوگ چلا سکتے ہیں جو دوسروں کو جاننا ااور سمجھنا تو درکنار خود اپنے آپ کو بھی اچھی طرح نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے؟ ایسے اناڑی جب قانون ساز بیٹھیں گے اور ایسے نادان جب انسانی زندگی کی ڈرائیوری پر آمادہ ہوں گے تو کیا اس کا انجام کسی اناڑی شخص کے موٹر چلانے کے انجام سے کچھ بھی مختلف ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا بنایا ہوا قانون مانا جا رہا ہے، اور جہاں خدا کی اطاعت سے بے نیاز ہو کر انسان حکم چلا رہے ہیں اور انسان کا حکم چلا رہے ہیں اور انسان ان کا حکم مان رہے ہیں، وہاں کسی جگہ بھی امن نہیں ہے۔ کسی جگہ بھی آدمی کو چین نصیب نہیں۔ کسی جگہ بھی انسانی زندگی کی کل سیدھی نہیں چلتی۔ کشت و خون ہو رہے ہیں، ظلم اور بے انصافی ہو رہی ہے، لوٹ کھسوٹ برپا ہے، آدمی کا خون آدمی چوس رہا ہے، اخلاق تباہ ہو رہے ہیں، صحتیں برباد ہو رہی ہیں، تمام طاقتیں جو خدا نے انسان کو دی تھیں، انسان کے فائدے کے بجائے اس کی تباہی اور بربادی میں صرف ہو رہی ہیں۔ یہ مستقل دوزخ جو اسی دنیا میں انسان نے اپنے لیے آپ اپنے ہاتھوں سے بنا لی ہے، اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس نے بچوں کی طرح شوق میں آ کر اس مشین کو چلانے کی کوشش کی جس کے کل پرزوں سے وہ واقف ہی نہیں۔ اس مشین کو جس نے بنایا ہے وہی اس کے رازوں کو جانتا ہے۔ وہی اس کی فطرت سے واقفیت رکھتا ہے۔ اسی کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ یہ کس طرح صحیح چل سکتی ہے۔ اگر آدمی اپنی حماقت سے باز آ جائے اور اپنی جہالت تسلیم کر کے اس قانون کی پیروی کرنے لگے جو خود اس مشین کے بنانے والے نے مقرر کیا ہے، تب تو جو کچھ بگڑا ہے وہ پھر بن سکتا ہے، ورنہ ان مصیبتوں کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔
بے انصافی کیوں ہے؟
آپ ذرا اور گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو جہالت کے سوا زندگی کے بگاڑ کی ایک اور وجہ بھی نظر آئے گی۔
ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے، سب اس کے حقدار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہون۔ سب امن کے، انصاف کے، عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوش حالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوشحالی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی خوشحالی ہے۔ ورنہ ایک خوشحال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوشحال ہے۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تو وہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقہ کی یا ایک قوم کی، ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔
فلاح کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟
اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق انصاف کے ساتھ وہ مقرر کرے جو نہ تو اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقہ کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اس کو خاص دلچسپی ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بنا پر حکمرانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور نہ ایک کا دشمن اور دوسرے کا دوست، ایک کا طرفدار اور دوسرے کا مخالف، ایک کی طرف مائل اور دوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں، تمام قوموں، تمام طبقوں، اور تمام گروہوں کو ان کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔
اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بےلاگ، ایسا غیر جانبدار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرات نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے، کوئی دوسرا اس شان کا نہیں ہے۔انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے، کچھ دلچسپیاں رکھتا ہے، کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم، کسی سے اس کو محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے، ان کمزوروں سے کوئی انسان پاک نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا قانون مانا جاتا ہے اور خدا کے بجائے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔
ان شاہی خاندانوں کو دیکھیے جو زبردستی اپنے طاقت کے بل بوتے پر امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے وہ عزت، وہ ٹھاٹھ، وہ آمدنی، وہ حقوق، اور وہ اختیارات مخصوص کر رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں، ان کے خلاف کوئی دعوٰی نہیں کیا جا سکتا، یہ چاہے کچھ کریں ان کے مقابلہ میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی، کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں، مگر کہا یہ جاتا ہے اور ماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ “بادشاہ غلطی سے پاک ہے”۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں، مگر یہ خدا بن کر سب سے اونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے، سر جھکائے، ڈرے، سہمے کھڑے ہوئے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی موت، سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسہ اچھے اور برے ہر طریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر، اپنی سواریوں پر، اپنے عیش و آرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی عادل کا مقرر کیا ہوسکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اور مفاد یکساں ہوں؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بنا سکتے ہیں؟
ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھیے، ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھیے، ان جاگیرداروں اور زمینداروں کو دیکھیے، ان ساہوکاروں اور مہاجنوں کو دیکھیے، یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین دنیا میں بنے ہیں وہ انہیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیے گئے۔ یہ پاک ہیں اور دوسرے ناپاک، یہ شریف ہیں اور دوسرے کمین، یہ اونچے ہیں دوسرے نیچے، یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دوسرے لٹنے کے لیے، ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کی جان، مال، عزت، آبرو ہر ایک چیز قربان کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی منصف کے بنائے ہوئے ہو سکتے ہیں؟ کیا ان میں صریح طور پر خودغرضی اور جانبداری نظر نہیں آتی؟ کیا اس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہوں؟
ان حاکم قوموں کو دیکھیے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کونسا قانون اور کون سا ضابطہ ایسا ہے جس میں خودغرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسانِ اعلیٰ کہتے ہیں، بلکہ درحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمزور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنٰی درجے کے ہیں۔ یہ ہر حیثیت سے اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دوسروں کے مفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دنیا میں بنے ہیں ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔
یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں، تفصیل کا یہاں موقع نہیں، میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں بلکہ انہیں انسانیت کے درجہ سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے، یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہمدردی نظر نہیں آتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے۔
مجھے بتائیے، کی اس بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا برد کر دیا جائے اور اس خدا کے قانون کو ہم سب تسلیم کر لیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں، فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق، اس کے اعمال اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل، یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔
امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟
(جاری ہے)
 

شکیل احمد

محفلین
انسان کی تباہی کا اصلی سبب
صاحبو، یہ بنیادی حقیقتیں ہیں جن پر اس دنیا کا پورا نظام چل رہا ہے۔ آپ اس دنیاسے الگ نہیں ہیں بلکہ اس کے اندر اس کے ایک جز کی حیثیت سے رہتے ہیں، لہٰذا آپ کی زندگی کے لیے بھی یہ حقیقتیں اسی طرح بنیادی ہیں جس طرح کُل جہان کے لیے ہیں۔
آج یہ سوال آپ میں سے ہر شخص کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک پریشان کن گتھی بنا ہوا ہے کہ آخر ہم انسانوں کی زندگی سے امن چین کیوں رخصت ہو گیا؟ کیوں آئے دن مصیبتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں؟ کیوں ہماری زندگی کی کَل بگڑ گئی ہے؟ قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں، ملک ملک میں کھینچا تانی ہو رہی ہے، آدمی آدمی کے لیے بھیڑیا بن گیا ہے، لاکھوں انسان لڑائیوں میں برباد ہو رہے ہیں، کروڑوں اور اربوں کے کاروبار غارت ہو رہے ہیں، بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں، طاقت ور کمزوروں کو کھائے جاتے ہیں، مالدار غریبوں کو لوٹے لیتے ہیں، حکومت میں ظلم ہے، عدالت میں بے انصافی ہے، دولت میں مستی ہے، اقتدار میں غرور ہے، دوستی میں بے وفائی ہے، امانت میں خیانت ہے، اخلاق میں راستی نہیں رہی، انسان پر سے انسان کا اعتماد اٹھ گیا ہے، مذہب کے جامے میں لامذہبی ہو رہی ہے، آدم کے بچے لاتعداد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ہر گروہ دوسرے گروہ کو دغا، ظلم، بے ایمانی، ہرممکن طریقہ سے نقصان پہنچانا کارِ ثواب سمجھ رہا ہے۔ یہ ساری خرابیاں آخر کس وجہ سے ہیں؟ خدا کی خدائی میں اور جس طرف بھی ہم دیکھتے ہیں امن ہی امن نظر آتا ہے۔ ستاروں میں امن ہے، ہوا میں امن ہے، پانی میں امن ہے، درختوں اور جانوروں میں امن ہے، تمام مخلوقات کا انتظام پورے امن کے ساتھ چل رہا ہے، کہیں فساد، بدنظمی کا نشان نہیں پایا جاتا، مگر ایک انسان ہی کی زندگی کیوں اس نعمت سے محروم ہو گئی؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جسے حل کرنے میں لوگوں کو سخت پریشانی پیش آ رہی ہے، مگر میں پورے اطمینان کے ساتھ اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ میرے پاس اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ:
“آدمی نے اپنی زندگی کو حقیقت اور واقعہ کے خلاف بنا رکھا ہے اس لیے وہ تکلیف اٹھا رہا ہے اور جب تک وہ پھر اسے حقیقت کے مطابق نہ بنائے گا کبھی چین نہ پا سکے گا”
آپ چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ بیٹھیں اور اسے کھول کر بے تکلف اس طرح باہر نکل آئیں جیسے اپنے مکان کے صحن میں قدم رکھ رہے ہیں تو آپ کی اس غلط فہمی سے نہ ریل کا دروازہ گھر کا دروازہ بن جائے گا اور نہ وہ میدان جہاں آپ گریں گے، گھر کا صحن ثابت ہو گا۔ آپ کے اپنی جگہ کچھ سمجھ بیٹھنے سے حقیقت ذرا بھی نہ بدلے گی۔ تیز دوڑتی ہوئی ریل کے دروازے سے جب آپ باہر تشریف لائیں گے تو اس کا جو نتیجہ ظاہر ہونا ہے وہ ظاہر ہو کر ہی رہے گا، خواہ ٹانگ اور سر پھٹنے کے بعد بھی آپ یہ تسلیم نہ کریں کہ آپ نے جو کچھ سمجھا تھا غلط سمجھا تھا۔
بالکل اسی طرح اگر آپ یہ سمجھ بیٹھیں کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، یا آپ خود اپنے خدا بن بیٹھیں، یا خدا کے سوا کسی اور کی خدائی مان لیں، تو آپ کے ایسا سمجھنے یا مان لینے سے حقیقت ہرگز نہ بدلے گی۔ خدا خدا ہی رہے گا۔ اس کی زبردست سلطنت جس میں آپ محض رعیت کی حیثیت سے رہتے ہیں، پورے اختیارات کے ساتھ اسی کے قبضہ میں رہے گی۔ البتہ آپ اپنی غلط فہمی کی وجہ سے جو طرز زندگی اختیار کریں گے اس کا نہایت برا خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا، خواہ آپ تکلیفیں اٹھانے کے بعد بھی اپنی اس غلط زندگی کو بجائے خود صحیح ہی سمجھتے رہیں۔
پہلے میں جو کچھ بیان کر چکا ہوں اسے ذرا اپنی یاد میں پھر تازہ کر لیجیے۔ خداوند عالم کسی کے بنائے سے خداوند عالم نہیں بنا ہے۔ وہ اس کا محتاج نہیں ہے کہ آپ اس کی خدائی مانیں تو وہ خدا ہو گا۔ آپ خواہ مانیں یا نہ مانیں وہ تو خود خدا ہے۔ اس کی خدائی خود اپنے زور پر قائم ہے۔ اس نے آپ کو اور اس دنیا کو خود بنایا ہے۔ یہ زمین، یہ چاند اور سورج، اور یہ ساری کائنات اسی کے حکم کی تابع ہے۔ اس کائنات میں جتنی قوتیں کام کر رہی ہیں سب اسی کے زیرِ حکم ہیں۔ وہ ساری چیزیں جن کے بل پر آپ زندہ ہیں، اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ خود آپ کا اپنا وجود اس کے اختیار میں ہے۔ اس واقعہ کو آپ کسی طرح بدل نہیں سکتے۔ آپ اس کو مانیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس سے آنکھیں بند کر لیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ آپ اس کے سوا کچھ اور سمجھ بیٹھیں تب بھی یہ واقعہ ہے۔ ان سب صورتوں میں واقعہ کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ البتہ فرق یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ اس واقعہ کو تسلیم کر کے اپنی وہی حیثیت قبول کر لیں جو اس واقعہ کے اندر دراصل آپ کی ہے تو آپ کی زندگی درست ہو گی۔ آپ کو چین ملے گا، اطمینان نصیب ہو گا، اور آپ کی زندگی کی ساری کل ٹھیک چلے گی۔ اور اگر آپ نے واقعہ کے خلاف کوئی اور حیثیت اختیار کی تو انجام وہی ہو گا جو چلتی ہوئی ریل کے دروازے کو اپنے گھر کا دروازہ سمجھ کر قدم باہر نکالنے کا ہوتا ہے۔ چوٹ آپ خود کھائیں گے، ٹانگ آپ کی ٹوٹے گی، سر آپ کا پھٹے گا، تکلیف آپ کو ہو گی، واقعہ جیسا تھا ویسا ہی رہے گا۔
ہماری صحیح حیثیت
آپ سوال کریں گے کہ اس واقعہ کے مطابق ہماری صحیح حیثیت کیا ہے؟میں چند لفظوں میں اس کی تشریح کیے دیتا ہوں۔ اگر کسی نوکر کو آپ تنخواہ دے کر پال رہے ہوں تو بتائیے اس نوکر کی اصلی حیثیت کیا ہے؟ یہی نا کہ آپ کی نوکری بجا لائے، آپ کے حکم کی اطاعت کرے، آپ کی مرضی کے مطابق کام کرے اور نوکری کی حد سے نہ بڑھے، نوکر کا کام آخر نوکری کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ اگر افسر ہوں اور کوئی آپ کا ماتحت ہو تو ماتحت کا کام کیا ہے؟ یہی نا کہ وہ ماتحتی کرے، افسری کی ہوا میں نہ رہے۔ اگر آپ کسی جائیداد کے مالک ہوں تو اس جائیداد میں آپ کی خواہش کیا ہو گی؟ یہی نا کہ اس میں آپ کی مرضی چلے، جو کچھ آپ چاہیں وہی ہو اور آپ کی مرضی کے خلاف پتا نہ ہل سکے۔ آپ پر اگر کوئی بادشاہی نظام مسلط ہواور تمام قوتیں اس کے ہاتھ میں ہوں تو ایسی بادشاہی کی موجودگی میں آپ کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟ یہی نا کہ آپ سیدھی طرح رعیت بن کر رہنا قبول کریں اور شاہی قانون کی فرمانبرداری سے قدم باہر نہ نکالیں۔ بادشاہ کی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے اگر آپ خود اپنی بادشاہی کا دعوٰی کریں گے یا کسی دوسرے کی بادشاہی مان کر اس کے حکم پر چلیں گے تو آپ باغی ہوں گے اور باغی کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے۔
ان مثالوں سے آپ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کی اس سلطنت میں آپ کی اصلی حیثیت کیا ہے؟
آپ کو اس نے بنایا ہے، قدرتی طورپر آپ کاکائی کام اس کے سوا نہیں ہے کہ اپنے بنانے والے کی مرضی پر چلیں۔
آپ کو وہ پال رہا ہے اور اسی کے خزانے سے آپ تنخواہ لے رہے ہیں، آپ کی کوئی حیثیت اس کے سوا نہیں ہے کہ آپ اس کے نوکر ہیں۔
آپ کا اور ساری دنیا کا افسر وہ ہے۔ اس کی افسری میں آپ کی حیثیت ماتحتی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔
یہ زمین و آسمان سب اس کی جائیداد ہیں۔ اس جائیداد میں اس کی مرضی چلے گی اور چلنی چاہیے۔ آپ کو یہاں اپنی مرضی چلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اپنی مرضی چلانے کی کوشش کریں گے تو منہ کی کھائیں گے۔
اس سلطنت میں اس کی بادشاہی اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ زمین اور آسمان کے سارے محکمے اس کے قبضہ میں ہیں۔ آپ خود چاہیے راضی ہوں یا نارا، بہرحال اس کی رعیت ہیں۔ آپ کی اور کسی انسان کی بھی، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کوئی دوسری حیثیت رعیت ہونے کے سوا نہیں ہے۔ اسی کا قانون اس سلطنت میں قانون ہے اور اسی کا حکم ہے۔ رعیت میں سے کسی کو یہ دعوٰی کرنے کا حق نہیں ہے کہ میں ہزمیجسٹی ہوں، یا ہز ہائی نس ہوں، یا ڈکٹیٹر اور خودمختار ہوں۔ نہ کسی شخص یا پارلیمنٹ یا اسمبلی یا کونسل کو اختیار حاصل ہے کہ اس سلطنت میں خدا کے بجائے خود اپنا قانون بنائے اور خدا کی رعیت سے کہے کہ ہمارے اس قانون کی پیروی کرو۔نہ کسی انسانی حکومت کو یہ حق پہنچتا ہے کہ خدا کے حکم سے بےنیاز ہو کر خود حکم چلائے اور خدا کے بندوں سے کہے کہ ہمارے اس حکم کی اطاعت کرو۔ نہ کسی انسان یا انسانوں کے گروہ کے لیے یہ جائز ہے کہ اصلی بادشاہ کی رعیت بننے کے بجائے بادشاہی کے جھوٹے مدعیوں میں سے کسی کی رعیت بننا قبول کرے، اصلی بادشاہ کے قانون کو چھوڑ کر جھوٹے قانون سازوں کا قانون تسلیم کرے، اور اصلی حکمران سے منہ موڑ کر جھوٹ موٹ کی ان حکومتوں کا حکم ماننے لگے، یہ تمام صورتیں بغاوت کی ہیں۔ خود بادشاہی کے اختیارات کا دعوٰی کرنا، یا ایسے کسی مدعی کے دعوے کو قبول کرنا، دونوں حرکتیں رعیت کے لیے بغاوت کا حکم رکھتی ہیں اور اس کی سزا ان دونوں کو ملنی یقینی ہے، خواہ جلدی ملے یا دیر میں۔
آپ کی اور ایک ایک انسان کی پیشانی کے بال خدا کی مٹھی میں ہیں، جب چاہے پکڑ کر گھسیٹ لے۔ زمین اور آسمان کی اس سلطنت میں بھاگ جانے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔ آپ اس سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں لے سکتے، مٹی میں مل کر آپ کا ایک ایک ذرہ بھی اگر منتشر ہو جائے، آگ میں جل کر خواہ آپ کی راکھ ہوا میں پھیل جائے، پانی بہہ کر خواہ آپ مچھلیوں کی خوارک بنیں یا سمندر کے پانی میں گھل جائیں، ہر جگہ سے خدا آپ کو پکڑ لے گا۔ ہوا اس کی غلام ہے، زمین اس کی بندی ہے، پانی اور اس کی مچھلیاں سب اس کے حکم کی تابع ہیں، ایک اشارے پر سب طرف سے آپ پکڑے ہوئے آ جائیں گے اور پھر وہ آپ میں سے ایک ایک کو بلا کر پوچھے گا کہ میرے رعیت ہو کر بادشاہی (Sovereignty) کا دعوٰی کرنے کا تمہیں کہاں سے پہنچ گیا تھا؟ میرے ملک میں اپنا حکم چلانے کے اختیارات تم کہاں سے لائے تھے؟ میری سلطنت میں اپنا قانون جاری کرنے والے تم کون تھے؟ میرے بندے ہو کر دوسروں کی بندگی کرنے پر تم کیسے راضی ہو گئے؟ میرے نوکر ہو کر تم نے دوسروں کا حکم مانا، مجھ سے تنخواہ لے کردوسروں کو اَن داتا اور رازق سمجھا، میرے غلام ہو کر دوسروں کی غلامی کی، میرے بادشاہی میں رہتے ہوئے دوسروں کے قانون کو قانون سمجھا، اور دوسروں کے فرامین کی اطاعت کی۔ یہ بغاوت کس طرح تمہارے لیے جائز ہو گئی تھی؟ فرمائیے آپ میں سے کسی کے پاس اس الزام کا جواب ہے؟ کون سے وکیل صاحب وہاں اپنے قانونی داؤ پیچ سے بچاؤ کی صورت نکال سکیں گے؟ اور کون سے سفارش پر آپ بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ آپ کو اس بغاوت کے جرم کی سزا بھگتنے سے بچا لے گی؟
ظلم کی وجہ
صاحبو، یہاں صرف حق ہی کا سوال نہیں ہے۔ یہ سوال بھی ہے کہ خدا کی اس خدائی میں کیا انسان بادشاہی یا قانون سازی یا حکمرانی کا اہل ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں، ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ یہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی اناڑی شخص جو اس مشینری سے واقف نہ ہو، اسے چلائے گا تو بگاڑ دے گا۔ ذرا کسی ناواقف آدمی سے ایک موٹر ہی چلوا کر دیکھ لیجیے، ابھی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس حماقت کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اب ذرا خود سوچیے کہ لوہے کی ایک مشین کا حال جب یہ ہے کہ صحیح علم کے بغیر اس کو استعمال نہیں کیا جا سکتا تو انسان جس کے نفسیات انتہا درجہ کے پیچیدہ ہیں، جس کی زندگی کے معاملات بے شمار پہلو رکھتے ہیں اور ہر پہلو میں لاکھوں گتھیاں ہیں، اس کی پیچ در پیچ مشینری کو وہ لوگ چلا سکتے ہیں جو دوسروں کو جاننا ااور سمجھنا تو درکنار خود اپنے آپ کو بھی اچھی طرح نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے؟ ایسے اناڑی جب قانون ساز بیٹھیں گے اور ایسے نادان جب انسانی زندگی کی ڈرائیوری پر آمادہ ہوں گے تو کیا اس کا انجام کسی اناڑی شخص کے موٹر چلانے کے انجام سے کچھ بھی مختلف ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا بنایا ہوا قانون مانا جا رہا ہے، اور جہاں خدا کی اطاعت سے بے نیاز ہو کر انسان حکم چلا رہے ہیں اور انسان کا حکم چلا رہے ہیں اور انسان ان کا حکم مان رہے ہیں، وہاں کسی جگہ بھی امن نہیں ہے۔ کسی جگہ بھی آدمی کو چین نصیب نہیں۔ کسی جگہ بھی انسانی زندگی کی کل سیدھی نہیں چلتی۔ کشت و خون ہو رہے ہیں، ظلم اور بے انصافی ہو رہی ہے، لوٹ کھسوٹ برپا ہے، آدمی کا خون آدمی چوس رہا ہے، اخلاق تباہ ہو رہے ہیں، صحتیں برباد ہو رہی ہیں، تمام طاقتیں جو خدا نے انسان کو دی تھیں، انسان کے فائدے کے بجائے اس کی تباہی اور بربادی میں صرف ہو رہی ہیں۔ یہ مستقل دوزخ جو اسی دنیا میں انسان نے اپنے لیے آپ اپنے ہاتھوں سے بنا لی ہے، اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اس نے بچوں کی طرح شوق میں آ کر اس مشین کو چلانے کی کوشش کی جس کے کل پرزوں سے وہ واقف ہی نہیں۔ اس مشین کو جس نے بنایا ہے وہی اس کے رازوں کو جانتا ہے۔ وہی اس کی فطرت سے واقفیت رکھتا ہے۔ اسی کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ یہ کس طرح صحیح چل سکتی ہے۔ اگر آدمی اپنی حماقت سے باز آ جائے اور اپنی جہالت تسلیم کر کے اس قانون کی پیروی کرنے لگے جو خود اس مشین کے بنانے والے نے مقرر کیا ہے، تب تو جو کچھ بگڑا ہے وہ پھر بن سکتا ہے، ورنہ ان مصیبتوں کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔
بے انصافی کیوں ہے؟
آپ ذرا اور گہری نظر سے دیکھیں تو آپ کو جہالت کے سوا زندگی کے بگاڑ کی ایک اور وجہ بھی نظر آئے گی۔
ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے، سب اس کے حقدار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہون۔ سب امن کے، انصاف کے، عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوش حالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوشحالی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی خوشحالی ہے۔ ورنہ ایک خوشحال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوشحال ہے۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تو وہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقہ کی یا ایک قوم کی، ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔
فلاح کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟
اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق انصاف کے ساتھ وہ مقرر کرے جو نہ تو اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقہ کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اس کو خاص دلچسپی ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بنا پر حکمرانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور نہ ایک کا دشمن اور دوسرے کا دوست، ایک کا طرفدار اور دوسرے کا مخالف، ایک کی طرف مائل اور دوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں، تمام قوموں، تمام طبقوں، اور تمام گروہوں کو ان کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔
اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بےلاگ، ایسا غیر جانبدار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہو سکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرات نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے، کوئی دوسرا اس شان کا نہیں ہے۔انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے، کچھ دلچسپیاں رکھتا ہے، کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم، کسی سے اس کو محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے، ان کمزوروں سے کوئی انسان پاک نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجائے انسانوں کا قانون مانا جاتا ہے اور خدا کے بجائے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔
ان شاہی خاندانوں کو دیکھیے جو زبردستی اپنے طاقت کے بل بوتے پر امتیازی حیثیت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے وہ عزت، وہ ٹھاٹھ، وہ آمدنی، وہ حقوق، اور وہ اختیارات مخصوص کر رکھے ہیں جو دوسروں کے لیے نہیں ہیں۔ یہ قانون سے بالاتر ہیں، ان کے خلاف کوئی دعوٰی نہیں کیا جا سکتا، یہ چاہے کچھ کریں ان کے مقابلہ میں کوئی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی، کوئی عدالت ان کے نام سمن نہیں بھیج سکتی۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ غلطیاں کرتے ہیں، مگر کہا یہ جاتا ہے اور ماننے والے مان بھی لیتے ہیں کہ “بادشاہ غلطی سے پاک ہے”۔ دنیا دیکھتی ہے کہ یہ معمولی انسان ہیں جیسے اور سب انسان ہوتے ہیں، مگر یہ خدا بن کر سب سے اونچے بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے سامنے یوں ہاتھ باندھے، سر جھکائے، ڈرے، سہمے کھڑے ہوئے ہیں گویا ان کا رزق، ان کی زندگی، ان کی موت، سب ان کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رعایا کا پیسہ اچھے اور برے ہر طریقے سے گھسیٹتے ہیں اور اسے اپنے محلوں پر، اپنی سواریوں پر، اپنے عیش و آرام اور اپنی تفریحوں پر بے دریغ لٹاتے ہیں۔ ان کے کتوں کو وہ روٹی ملتی ہے جو کما کر دینے والی رعایا کو نصیب نہیں ہوتی۔ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ طریقہ کسی عادل کا مقرر کیا ہوسکتا ہے جس کی نگاہ میں سب انسانوں کے حقوق اور مفاد یکساں ہوں؟ کیا یہ لوگ انسانوں کے لیے کوئی منصفانہ قانون بنا سکتے ہیں؟
ان برہمنوں اور پیروں کو دیکھیے، ان نوابوں اور رئیسوں کو دیکھیے، ان جاگیرداروں اور زمینداروں کو دیکھیے، ان ساہوکاروں اور مہاجنوں کو دیکھیے، یہ سب طبقے اپنے آپ کو عام انسانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین دنیا میں بنے ہیں وہ انہیں ایسے حقوق دیتے ہیں جو عام انسانوں کو نہیں دیے گئے۔ یہ پاک ہیں اور دوسرے ناپاک، یہ شریف ہیں اور دوسرے کمین، یہ اونچے ہیں دوسرے نیچے، یہ لوٹنے کے لیے ہیں اور دوسرے لٹنے کے لیے، ان کے نفس کی خواہشوں پر لوگوں کی جان، مال، عزت، آبرو ہر ایک چیز قربان کر دی جاتی ہے۔ کیا یہ ضابطے کسی منصف کے بنائے ہوئے ہو سکتے ہیں؟ کیا ان میں صریح طور پر خودغرضی اور جانبداری نظر نہیں آتی؟ کیا اس سوسائٹی میں منصفانہ قوانین بن سکتے ہیں جس پر یہ لوگ چھائے ہوئے ہوں؟
ان حاکم قوموں کو دیکھیے جو اپنی طاقت کے بل پر دوسری قوموں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کونسا قانون اور کون سا ضابطہ ایسا ہے جس میں خودغرضی شامل نہیں ہے؟ یہ اپنے آپ کو انسانِ اعلیٰ کہتے ہیں، بلکہ درحقیقت صرف اپنے ہی کو انسان سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کمزور قوموں کے لوگ یا تو انسان ہی نہیں ہیں یا اگر ہیں تو ادنٰی درجے کے ہیں۔ یہ ہر حیثیت سے اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا ہی رکھتے ہیں اور اپنی اغراض پر دوسروں کے مفاد کو قربان کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے زور و اثر سے جتنے قوانین اور ضوابط دنیا میں بنے ہیں ان سب میں یہ رنگ موجود ہے۔
یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں، تفصیل کا یہاں موقع نہیں، میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں بلکہ انہیں انسانیت کے درجہ سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے، یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہمدردی نظر نہیں آتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے۔
مجھے بتائیے، کی اس بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا برد کر دیا جائے اور اس خدا کے قانون کو ہم سب تسلیم کر لیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں، فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق، اس کے اعمال اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل، یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔
امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے؟
(جاری ہے)
 
Top