سلامتی کا راستہ
صاحبو، اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ بازار میں ایک دوکان ایسی ہے جس کا کوئی دکاندار نہیں ہے، نہ کوئی اس میں مال لانے والا ہے، نہ بیچنے والا ہے اور نہ کوئی اس کی رکھوالی کرتا ہے، دوکان خود بخود چل رہی ہے، خود بخود اس میں مال آ جاتا ہے اور خود بخود خریداروں کے ہاتھوں فروخت ہو جاتا ہے، تو کیا آپ اس شخص کی بات مان لیں گے؟ کیا آپ تسلیم کر لیں گے کہ کسی دوکان میں مال لانے والے کے بغیر خود بخود بھی مال آ سکتا ہے؟ مال بیچنے والے کے بغیر خود بخود فروخت بھی ہو سکتا ہے؟ حفاظت کرنے والے کے بغیر خود بخود چوری، لوٹ سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے؟ اپنے دل سے پوچھئے، ایسی بات آپ کبھی مان سکتے ہیں؟ جس کے ہوش و حواس ٹھکانے ہوں کیا اس کی عقل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ کوئی دوکان دنیا میں ایسی بھی ہو گی؟
فرض کیجیے، ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ اس شہر میں ایک کارخانہ ہے جس کا نہ کوئی مالک ہے، نہ انجینئر، نہ مستری، سارا کارخانہ خودبخود قائم ہو گیا ہے، ساری مشینیں خود بن گئی ہیں، خود ہی سارے پرزے اپنی اپنی جگہ لگ گئے ہیں، خود ہی سب مشینیں چل رہی ہیں اور خود ہی ان میں سے عجیب عجیب چیزیں بن کر نکلتی رہتی ہیں، سچ بتائیے جو شخص آپ سے یہ بات کہے گا، آپ حیرت سے اس کا منہ نہ تکنے لگیں گے؟ آپ کو یہ شبہ نہ ہو گا کہ اس کا دماغ کہیں خراب تو نہیں ہو گیا ہے؟ کیا ایک پاگل کے سوا ایسی بیہودہ بات کوئی کہہ سکتا ہے؟
دور کی مثال چھوڑیے، یہ بجلی کا بلب جو آپ کے سامنے جل رہا ہے کیا کسی کے کہنے سے آپ یہ مان سکتے ہیں کہ روشنی اس بلب میں آپ سے آپ پیدا ہو جاتی ہے؟ یہ کرسی جو آپ کے سامنے رکھی ہے، کیا کسی بڑے سے بڑے فاضل فلسفی کے کہنے سے بھی آپ یہ باور کر سکتے ہیں کہ یہ خود بخود بن گئی ہے؟ یہ کپڑے جو آپ پہنے ہوئے ہیں، کیا کسی علامہ دہر کے کہنے سے بھی آپ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیارہو سکتے ہیں کہ ان کو کسی نہ بُنا نہیں ہے، یہ خودبخود بن گئے ہیں؟ یہ گھر جو آپ کے سامنے کھڑے ہیں، اگر تمام دنیا کی یونیورسٹیوں کے پروفیسری مل کر بھی آپ کو یقین دلائیں کہ ان گھروں کو کسی نے نہیں بنایا بلکہ یہ خود بخود بن گئے ہیں، تو کیا ان کے یقین دلانے سے آپ کو ایسی لغو بات پر یقین آ جائے گا؟
یہ چند مثالیں آپ کے سامنے کی ہیں۔ رات دن جن چیزوں کو آپ دیکھتے ہیں انہیں میں سے چند ایک میں نے بیان کی ہیں۔ اب غور کیجیے، ایک معمولی دوکان کے متعلق جب آپ کی عقل یہ نہیں مان سکتی کہ وہ کسی قائم کرنے والے کے بغیر چل رہی ہے، جب ایک ذرا سے کارخانے کے متعلق آپ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن جائے گا اور کسی چلانے والے کے بغیر چلتا رہے گا تو یہ زمین و آسمان کا زبردست کارخانہ جو آپ کے سامنے چل رہا ہے، جس میں چاند اور سورج اور بڑے بڑے ستارے گھڑی کے پرزوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں، جس میں سمندروں سے بھاپیں اٹھتی ہیں، بھاپوں سے بادل بنتے ہیں، بادلوں کو ہوائیں اڑا کر زمین کے کونے کونے میں پھیلاتی ہیں، پھر ان کو مناسب وقت پر ٹھنڈک پہنچا کر دوبارہ بھاپ سے پانی بنایا جاتا ہے، پھر وہ پانی بارش کے قطروں کی صورت میں زمین پر گرایا جاتا ہے، پھر اس بارش کی بدولت مردہ زمین کے پیٹ سے طرح طرح کے لہلہاتے ہوئے درخت نکالے جاتے ہیں، قسم قسم کے غلے، رنگ برنگ کے پھل اور وضع وضع کے پھول پیدا کیے جاتے ہیں، اس کارخانے کے متعلق آپ یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی بنانے والے کے بغیر خود بخود چل رہا ہے؟ ایک ذرا سی کرسی، ایک گز بھر کپڑے، ایک چھوٹی سی دیوار کے متعلق کوئی کہہ دے کہ یہ چیزیں خود بنی ہیں تو آپ فورًا فیصلہ کر دیں گے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ پھر بھلا اس شخص کے دماغ کی خرابی میں کیا شک ہو سکتا ہے جو کہتا ہے کہ زمین خود بن گئی، جانور خود پیدا ہو گئے، انسان جیسی حیرت انگیز چیز آپ سے آپ بن کر کھڑی ہو گئی؟
آدمی کا جسم جن اجزا سے مل کر بنا ہے ان سب کو سائینس دانوں نے الگ الگ کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کچھ کوئلہ، کچھ گندھک، کچھ فاسفورس، کچھ کیلشیم، کچھ نمک، چند گیسیں اور بس ایسی ہی چند اور چیزیں جن کی مجموعی قیمت چند روپوں سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ چیزیں جتنے جتنے وزن کے ساتھ آدمی کے جسم میں شامل ہیں، اتنے ہی وزن کے ساتھ انہیں لیجیے اور جس طرح جی چاہے ملا کر دیکھ لیجیے، آدمی کسی ترکیب سے نہ بن سکے گا۔ پھر کس طرح آپ کی عقل یہ مان سکتی ہے کہ ان چند بے جان چیزوں سے دیکھتا، سنتا، بولتا، چلتا، پھرتا انسان، جو ہوائی جہاز اور ریڈیو بناتا ہے، کسی کاریگر کی حکمت کے بغیر خود بخود بن جاتا ہے؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ ماں کے پیٹ کی چھوٹی سے فیکٹری میں کس طرح آدمی تیارہوتا ہے؟ باپ کی کارستانی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ماں کی حکمت کا اس میں کوئی کام نہیں۔ ایک ذرا سی تھیلی میں دو کیڑے جو خوردبین کے بغیر دیکھنے میں نہیں آ سکتے، نہ معلوم کب آپس میں مل جاتے ہیں، ماں کے خون ہی سے ان کو غذا پہنچنی شروع ہو جاتی ہے۔ وہیں سے لوہا، گندھک، فاسفورس وغیرہ تمام چیزیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ایک خاص وزن اور خاص نسبت کے ساتھ وہاں جمع ہو کر لوتھڑا بنتی ہیں۔ پھر اس لوتھڑے میں جہاں آنکھیں بننی چاہیئیں وہاں آنکھیں بنتی ہیں، جہاں کان بننے چاہیئیں وہاں کان بنتے ہیں، جہاں دماغ بننا چاہیے وہاں دماغ بنتا ہے، جہاں دل بننا چاہیے وہاں دل بنتا ہے۔
ہڈی اپنی جگہ، گوشت اپنی جگہ، غرض ایک ایک پرزہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھتا ہے۔ پھر اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ دیکھنے کی طاقت، سننے کی طاقت، چکھنے اور سونگھنے کی طاقت، بولنے کی طاقت، سوچنے اور سمجھنے کی طاقت، اور نہ جانے کتنی بے حدوحساب طاقتیں اس میں بھر جاتی ہیں۔ اس طرح جب انسان مکمل ہو جاتا ہے تو پیٹ کی وہی چھوٹی سی فیکٹری جہاں نو مہینے تک وہ بن رہا تھا، خود زور کر کے اسے باہر دھکیل دیتی ہے۔ اس فیکٹری سے ایک ہی طریقے پر لاکھوں انسان روز بن کر نکل رہے ہیں۔ مگر ہر ایک کا نمونہ جدا ہے، شکل جدا، رنگ جدا، آواز جدا، قوتیں اور قابلیتیں جدا، طبیعتیں اور خیالات جدا، اخلاق اور صفات جدا۔ ایک ہی ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے دو سگے بھائی تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ یہ ایک ایسا کرشمہ ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کرشمے کو دیکھ بھی جو شخص کہتا ہے کہ یہ کام کسی زبردست حکمت والے، زبردست قدرت والے، زبردست علم والے، اور بے نظیر کمالات والے اللہ کے بغیر ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے، یقینًا اس کا دماغ درست نہیں۔ اس کو عقلمند سمجھنا عقل کی توہین ہے۔ کم از کم میں تو ایسے شخص کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔
توحید
اچھا، اب ذرا اور آگے چلیے۔ آپ میں سے ہر شخص کی عقل اس بات کی گواہی دے گی کہ دنیا میں کوئی کام بھی، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کبھی باضابطگی و باقاعدگی کے بٖغیر نہیں چل سکتا جب تک کہ کوئی ایک شخص اس کا ذمہ دار نہ ہو۔ ایک مدرسہ کے دو ہیڈماسٹر، ایک محکمہ کے دو ڈائرکٹر، ایک فوج کے دو سپہ سالار، ایک سلطنت کے دو رئیس یا بادشاہ کبھی آپ نے سنے ہیں؟ اور کہیں ایسا ہو تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک دن کے لیے بھی انتظام ٹھیک ہو سکتا ہے؟ آپ اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اس کا تجربہ کرتے ہیں کہ جہاں کوئی کام ایک سے زیادہ آدمیوں کی ذمہ داری پر چھوڑا جاتا ہے وہاں سخت بدنظامی ہوتی ہے، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، اور آخر ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ کر رہتی ہے۔ انتظام، باقاعدگی، ہمواری اور خوش اسلوبی دنیا میں جہاں کہیں بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں لازمی طور پر کوئی ایک طاقت کرفرما ہوتی ہے، کوئی ایک ہی وجود بااختیار و اقتدار ہوتا ہے، اور کسی ایک کے ہاتھ میں سررشتہ ہوتا ہے۔ اس کے بغیر انتظام کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔
یہ ایسی سیدھی بات ہے کہ کوئی شخص جو تھوڑی سی بھی عقل رکھتا ہو اسے ماننے میں تامل نہ کرے گا۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر ذرا اپنے گردوپیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ یہ زبردست کائنات جو آپ کے سامنے پھیلی ہوئی ہے، یہ کروڑوں سیارے جو آپ کو گردش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ زمین جس پر آپ رہتے ہیں، یہ چاند جو راتوں کو نکلتا ہے، یہ سورج جو صبح کو طلوع ہوتا ہے، یہ زہرہ، یہ مریخ، یہ عطارد، یہ مشتری اور یہ دوسرے بےشمار تارے جو گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں، دیکھیے، ان سب کے گھومنے میں کیسی سخت باقاعدگی ہے کبھی رات اپنے وقت سے پہلےآتی ہوئی آپ نے دیکھی؟کبھی دن وقت سے پہلے نکلتےدیکھا؟ کبھی چاند زمین سے ٹکرایا؟ کبھی سورج اپنا راستہ چھوڑ کر ہٹا؟ کبھی کسی اور ستارے کو آپ نے ایک بال برابر بھی اپنی گردش کی راہ سے ہٹتے ہوئے دیکھا یا سنا؟ یہ کروڑہا سیارے جن میں سے بعض ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے ہیں اور بعض سورج سے بھی ہزاروں گنے بڑے، یہ سب گھڑی کے پرزوں کی طرح ایک زبردست ضابطے میں کسے ہوئے اور ایک بندھے ہوئے حساب کے مطابق اپنی اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ راستے پر چل رہے ہیں۔ نہ کسی کی رفتار میں ذرہ برابر فرق آتا ہے، نہ کوئی اپنے راستے سے بال برابر ٹل سکتا ہے۔ ان کے درمیان جو نسبتیں قائم کر دی گئی ہیں، اگر ان میں ایک پل کے لیے بھی ذرا سا فرق آ جائے تو سارا نطامِ عالم برہم ہو جائے، جس طرح ریلیں ٹکراتی ہیں اسی طرح سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔
یہ تو آسمان کی باتیں ہیں۔ ذرا اپنی زمین اور اپنی ذات پر نظر ڈال کر دیکھیے۔ اس مٹی کی گیند پر یہ سارا زندگی کا کھیل جو آپ دیکھ رہے ہیں، یہ سب چند بندھے ہوئے ضابطوں کی بدولت قائم ہے۔ زمین کی کشش نے ساری چیزوں کو اپنے حلقے میں باندھ رکھا ہے۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اگر وہ اپنی گرفت چھوڑ دے تو سارا کارخانہ بکھر جائے، اس کارخانے میں جتنے کل پرزے کام کر رہے ہیں، سب کے سب ایک قاعدے کے پابند ہیں اور اس قاعدے میں کبھی فرق نہیں آیا۔ ہوا اپنے قاعدے کی پابندی کر رہی ہے، پانی اپنے قاعدے میں بندھا ہوا ہے، روشنی کے لیے جو قاعدہ ہے اس کی وہ مطیع ہے، گرمی اور سردی کے لیے جو ضابطہ ہے اس کی وہ غلام ہے۔ مٹی پتھر، دھاتیں، بجلی، اسٹیم، درخت، جانور، کسی میں یہ مجال نہیں کہ اپنی حد سے بڑھ جائے یا اپنی خاصیتیوں کو بدل دے یا اس کام کو چھوڑ دے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ پھر اپنی حد کے اندر، اپنے ضابطہ کی پابندی کرنے کے ساتھ اس کارخانے کے سارے پرزے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، سب اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اور ساری قوتیں مل کر کام کر رہی ہیں۔
ایک ذرا سے بیج کی ہی مثال لے لیجیے جس کو آپ زمین میں بوتے ہیں۔ وہ کبھی پرورش پا کر درخت بن ہی نہیں سکتا جب تک زمین اور آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کی پرورش میں حصہ نہ لیں۔ زمین اپنے خزانوں سے اس کو غذا دیتی ہے، سورج اس کی ضرورت کے مطابق اسے گرمی پہنچاتا ہے، پانی سے جو کچھ وہ مانگتا ہے وہ پانی دیتا ہے، ہوا سے جو کچھ وہ طلب کرتا ہے وہ ہوا دیتی ہے، راتیں اسے ٹھنڈک اور اوس بہم پہنچاتی ہیں، دن اسے گرمی پہنچا کر پختگی کی طرف لے جاتے ہیں، اس طرح مہینوں اور برسوں تک مسلسل ایک باقاعدگی کے ساتھ یہ سب مل جل کر اسے پالتے پوستے ہیں، تب جا کر کہیں درخت بنتا ہے اور اس میں پھل آتے ہیں۔ آپ کی یہ ساری فصلیں جن کے بل بوتے پر آپ جی رہے ہیں، انہی بےشمار مختلف قوتوں کے بالاتفاق کام کرنے ہی کی وجہ سے تیار ہوتی ہیں، بلکہ آپ خود زندہ اسی وجہ سے ہیں کہ زمین اور آسمان کی تمام طاقتیں متفقہ طور پر آپ کی پرورش میں لگی ہوئی ہیں۔
اگر تنہا ایک ہوا ہی اس متفقہ کاروبار سے الگ ہو جائے تو آپ ختم ہو جائیں۔اگر پانی ہوا اور گرمی کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کر دے تو آپ پر بارش کا ایک قطرہ نہ برس سکے۔ اگر مٹی پانی کے ساتھ اتفاق کرنا چھوڑ دے تو آپ کے باغ سوکھ جائیں، آپ کی کھیتیاں کبھی نہ پکیں اور آپ کے مکان کبھی نہ بن سکیں۔ اگر دیا سلائی کی رگڑ سے آگ پیدا ہونے پر راضی نہ ہو تو آپ کے چولہے ٹھنڈے ہو جائیں اور آپ کے سارے کارخانے یک لخت بیٹھ جائیں، اگر لوہا آگ کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کر دے تو آپ ریلیں اور موٹریں تو درکنار ایک سوئی اور چھری تک نہ بنا سکیں۔ غرض یہ ساری دنیا جس میں آپ جی رہے ہیں، یہ صرف اسی وجہ سے قائم ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے سارے محکمے کے کسی اہل کار کی یہ مجال نہیں ہے کہ اپنی ڈیوٹی سے ہٹ جائے یا ضابطہ کے مطابق دوسرے محکموں کے اہل کاروں سے اشتراکِ عمل نہ کرے۔
یہ جو کچھ میں آپ سے بیان کیا ہے، کیا اس میں کوئی بات جھوٹ یا خلافِ واقعہ ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی بھی اسے جھوٹ نہ کہے گا۔ اچھا، اگر یہ سچ ہے تو مجھے بتائیے کہ یہ زبردست انتظام، یہ حیرت انگیز باقاعدگی، یہ کمال درجہ کی ہمواری، یہ زمین و آسمان کی بے حدوحساب چیزوں اور طاقتوں میں کامل موافقت آخر کس وجہ سے ہے؟ کروڑوں برس سے یہ کائنات یونہی قائم چلی آ رہی ہے، لکھوکھا سال سے اس زمین پر درخت اگ رہے ہیں، جانور پیدا ہو رہے ہیں، اور نہ معلوم کب سے انسان اس زمین پر جی رہا ہے۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ چاند زمین پر گر جاتا یا زمین سورج سے ٹکرا جاتی، کبھی رات اور دن کے حساب میں فرق نہ آیا، کبھی ہوا کے محکمے کی پانی کے محکمے سے لڑائی نہ ہوئی۔ کبھی پانی مٹی سے نہ روٹھا، کبھی گرمی نے آگ سے رشتہ نہ توڑا۔ آخر اس سلطنت کے تمام صوبے، تمام محکمے، تمام ہرکارے اور کارندے کیوں اس طرح قانون اور ضابطے کی پابندی کیے چلے جا رہے ہیں؟ کیوں ان میں لڑائی نہیں ہوتی؟ کیوں فساد برپا نہیں ہوتا؟ کس چیز کی وجہ سے یہ سب ایک انتظام میں بندھے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھیے۔ کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ ایک ہی اللہ اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے، ایک ہی ہے جس کی زبردست طاقت نے سب کو اپنے ضابطے میں باندھ رکھا ہے؟ اگر دس بیس نہیں دو الٰہ بھی اس کائنات کے مالک ہوتے تو یہ انتظام اس بإقاعدگی کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ ایک ذرا سے مدرسے کا انتظام تو دو ہیڈماسٹروں کی ہیڈماسٹری برداشت نہیں کر سکتا، پھر بھلا اتنی بڑی زمین و آسمان کی سلطنت دو خداؤں کی خدائی میں کیسے چل سکتی تھی؟
پس واقعہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ دنیا کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بنی ہے، بلکہ یہ بھی واقعہ ہے کہ اس کا ایک ہی نے بنایا ہے، حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اس دنیا کا انتظام کسی حاکم کے بغیر نہیں چل رہا ہے، بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ حاکم ایک ہی ہے۔ انتظام کی باقاعدگی صاف کہہ رہی ہے کہ یہاں ایک کے سوا کسی کے ہاتھ میں حکومت کے اختیارات نہیں ہیں۔ ضابطہ کی پابندی منہ سے بول رہی ہے کہ اس سلطنت میں ایک حاکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ قانون کی سخت گیری شہادت دے رہی ہے کہ ایک ہی بادشاہ کی حکومت زمین سے آسمان تک قائم ہے۔ چاند، سورج اور سیارے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ زمین اپنی تمام چیزوں کے ساتھ اسی کے تابع فرمان ہے۔ ہوا اسی کی غلام ہے، پانی اسی کا بندہ ہے، دریا اور پہاڑ اسی کے اختیار میں ہیں، درخت اور جانور اسی کے مطیع ہیں، انسان کا جینا اور مرنا اسی کے اختیار میں ہے، اس کی مضبوط گرفت نے سب کو پوری قوت کے ساتھ جکڑ رکھا ہے، کوئی اتنا زور نہیں رکھتا کہ اس کی حکومت میں اپنا حکم چلا سکے۔
درحقیقت اس مکمل تنظیم میں ایک سے زیادہ حاکموں کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ تنظیم کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ حکم میں ایک شمہ برابر بھی کوئی دوسرا حصہ دار نہ ہو۔ تنہا ایک حاکم ہو اور اس کے سوا سب محکوم ہوں کیونکہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں فرماں روائی کے ادنٰی سے اختیارات ہونے کے معنی بھی بدنظمی اور فساد کے ہیں۔ حکم چلانے کے لیے صرف طاقت ہی درکار نہیں ہے، علم بھی درکار ہے۔ اتنی وسیع نظر درکار ہے کہ تمام کائنات کو بیک وقت دیکھ سکے اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ کر احکام جاری کر سکے۔اگر خداوندِ عالم کے سوا کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ایسے ہوتے جو نگاہ جہاں بیں تو نہ رکھتے، لیکن انہیں دنیا کے کسی حصے یا کسی معاملہ میں اپنا حکم چلانے کا اختیار حاصل ہوتا تو یہ زمین و آسمان کا سارا کارخانہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ جانتے ہیں کہ اگر کسی ایسے شخص کو اس میں دخل اندازی کا اختیار دے دیا جائے جو اس سے پوری طرح واقف نہ ہو تو وہ اسے بگاڑ کر رکھ دے گا۔ لہٰذا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے اور زمین و آسمان کے نظامِ سلطنت کا انتہائی باضابطگی کے ساتھ چلنا اس کی گواہی دیتا ہے کہ اس سلطنت کے اختیاراتِ شاہی میں ایک اللہ سوا کسی کا ذرہ برابر حصہ نہیں ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ ہی نہیں ہے، حق یہ ہے کہ اللہ کی خدائی میں خود اللہ کے سوا کسی کا حکم چلنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔جن کو اس نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے، جو اس کی مخلوق ہیں، جن کی ہستی اس کی عنایت پر قائم ہے، جو اس سے بےنیاز ہو کر خود اپنے بل بوتے پر ایک لمحہ کے لیے بھی موجود نہیں رہ سکتے، ان میں سے کسی کی یہ حیثیت کب ہو سکتی ہے کہ خدائی میں اس کا حصہ دار بن جائے؟ کیا کسی نوکر کو آپ نے ملکیت میں آقا کا شریک ہوتے دیکھا ہے؟ کیا آپ کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ کوئی مالک اپنے غلام کو اپنا ساجھی بنا لے؟ کیا خود آپ میں سے کوئی شخص اپنے ملازموں میں سے کسی کو اپنی جائیداد میں یا اپنے اختیارات میں حصہ دار بناتا ہے؟ اس بات پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ اللہ کی اس سلطنت میں کسی بندے کو خودمختارانہ فرماں روائی کا کوئی حق حاصل ہی نہیں ہے۔ ایسا ہونا نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے، نہ صرف عقل اور فطرت کے خلاف ہے، بلکہ حق کے خلاف بھی ہے۔
صاحبو، اگر کوئی شخص آپ سے کہے کہ بازار میں ایک دوکان ایسی ہے جس کا کوئی دکاندار نہیں ہے، نہ کوئی اس میں مال لانے والا ہے، نہ بیچنے والا ہے اور نہ کوئی اس کی رکھوالی کرتا ہے، دوکان خود بخود چل رہی ہے، خود بخود اس میں مال آ جاتا ہے اور خود بخود خریداروں کے ہاتھوں فروخت ہو جاتا ہے، تو کیا آپ اس شخص کی بات مان لیں گے؟ کیا آپ تسلیم کر لیں گے کہ کسی دوکان میں مال لانے والے کے بغیر خود بخود بھی مال آ سکتا ہے؟ مال بیچنے والے کے بغیر خود بخود فروخت بھی ہو سکتا ہے؟ حفاظت کرنے والے کے بغیر خود بخود چوری، لوٹ سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے؟ اپنے دل سے پوچھئے، ایسی بات آپ کبھی مان سکتے ہیں؟ جس کے ہوش و حواس ٹھکانے ہوں کیا اس کی عقل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ کوئی دوکان دنیا میں ایسی بھی ہو گی؟
فرض کیجیے، ایک شخص آپ سے کہتا ہے کہ اس شہر میں ایک کارخانہ ہے جس کا نہ کوئی مالک ہے، نہ انجینئر، نہ مستری، سارا کارخانہ خودبخود قائم ہو گیا ہے، ساری مشینیں خود بن گئی ہیں، خود ہی سارے پرزے اپنی اپنی جگہ لگ گئے ہیں، خود ہی سب مشینیں چل رہی ہیں اور خود ہی ان میں سے عجیب عجیب چیزیں بن کر نکلتی رہتی ہیں، سچ بتائیے جو شخص آپ سے یہ بات کہے گا، آپ حیرت سے اس کا منہ نہ تکنے لگیں گے؟ آپ کو یہ شبہ نہ ہو گا کہ اس کا دماغ کہیں خراب تو نہیں ہو گیا ہے؟ کیا ایک پاگل کے سوا ایسی بیہودہ بات کوئی کہہ سکتا ہے؟
دور کی مثال چھوڑیے، یہ بجلی کا بلب جو آپ کے سامنے جل رہا ہے کیا کسی کے کہنے سے آپ یہ مان سکتے ہیں کہ روشنی اس بلب میں آپ سے آپ پیدا ہو جاتی ہے؟ یہ کرسی جو آپ کے سامنے رکھی ہے، کیا کسی بڑے سے بڑے فاضل فلسفی کے کہنے سے بھی آپ یہ باور کر سکتے ہیں کہ یہ خود بخود بن گئی ہے؟ یہ کپڑے جو آپ پہنے ہوئے ہیں، کیا کسی علامہ دہر کے کہنے سے بھی آپ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیارہو سکتے ہیں کہ ان کو کسی نہ بُنا نہیں ہے، یہ خودبخود بن گئے ہیں؟ یہ گھر جو آپ کے سامنے کھڑے ہیں، اگر تمام دنیا کی یونیورسٹیوں کے پروفیسری مل کر بھی آپ کو یقین دلائیں کہ ان گھروں کو کسی نے نہیں بنایا بلکہ یہ خود بخود بن گئے ہیں، تو کیا ان کے یقین دلانے سے آپ کو ایسی لغو بات پر یقین آ جائے گا؟
یہ چند مثالیں آپ کے سامنے کی ہیں۔ رات دن جن چیزوں کو آپ دیکھتے ہیں انہیں میں سے چند ایک میں نے بیان کی ہیں۔ اب غور کیجیے، ایک معمولی دوکان کے متعلق جب آپ کی عقل یہ نہیں مان سکتی کہ وہ کسی قائم کرنے والے کے بغیر چل رہی ہے، جب ایک ذرا سے کارخانے کے متعلق آپ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن جائے گا اور کسی چلانے والے کے بغیر چلتا رہے گا تو یہ زمین و آسمان کا زبردست کارخانہ جو آپ کے سامنے چل رہا ہے، جس میں چاند اور سورج اور بڑے بڑے ستارے گھڑی کے پرزوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں، جس میں سمندروں سے بھاپیں اٹھتی ہیں، بھاپوں سے بادل بنتے ہیں، بادلوں کو ہوائیں اڑا کر زمین کے کونے کونے میں پھیلاتی ہیں، پھر ان کو مناسب وقت پر ٹھنڈک پہنچا کر دوبارہ بھاپ سے پانی بنایا جاتا ہے، پھر وہ پانی بارش کے قطروں کی صورت میں زمین پر گرایا جاتا ہے، پھر اس بارش کی بدولت مردہ زمین کے پیٹ سے طرح طرح کے لہلہاتے ہوئے درخت نکالے جاتے ہیں، قسم قسم کے غلے، رنگ برنگ کے پھل اور وضع وضع کے پھول پیدا کیے جاتے ہیں، اس کارخانے کے متعلق آپ یہ کیسے مان سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی بنانے والے کے بغیر خود بخود چل رہا ہے؟ ایک ذرا سی کرسی، ایک گز بھر کپڑے، ایک چھوٹی سی دیوار کے متعلق کوئی کہہ دے کہ یہ چیزیں خود بنی ہیں تو آپ فورًا فیصلہ کر دیں گے کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ پھر بھلا اس شخص کے دماغ کی خرابی میں کیا شک ہو سکتا ہے جو کہتا ہے کہ زمین خود بن گئی، جانور خود پیدا ہو گئے، انسان جیسی حیرت انگیز چیز آپ سے آپ بن کر کھڑی ہو گئی؟
آدمی کا جسم جن اجزا سے مل کر بنا ہے ان سب کو سائینس دانوں نے الگ الگ کر کے دیکھا تو معلوم ہوا کہ کچھ کوئلہ، کچھ گندھک، کچھ فاسفورس، کچھ کیلشیم، کچھ نمک، چند گیسیں اور بس ایسی ہی چند اور چیزیں جن کی مجموعی قیمت چند روپوں سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ چیزیں جتنے جتنے وزن کے ساتھ آدمی کے جسم میں شامل ہیں، اتنے ہی وزن کے ساتھ انہیں لیجیے اور جس طرح جی چاہے ملا کر دیکھ لیجیے، آدمی کسی ترکیب سے نہ بن سکے گا۔ پھر کس طرح آپ کی عقل یہ مان سکتی ہے کہ ان چند بے جان چیزوں سے دیکھتا، سنتا، بولتا، چلتا، پھرتا انسان، جو ہوائی جہاز اور ریڈیو بناتا ہے، کسی کاریگر کی حکمت کے بغیر خود بخود بن جاتا ہے؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ ماں کے پیٹ کی چھوٹی سے فیکٹری میں کس طرح آدمی تیارہوتا ہے؟ باپ کی کارستانی کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ ماں کی حکمت کا اس میں کوئی کام نہیں۔ ایک ذرا سی تھیلی میں دو کیڑے جو خوردبین کے بغیر دیکھنے میں نہیں آ سکتے، نہ معلوم کب آپس میں مل جاتے ہیں، ماں کے خون ہی سے ان کو غذا پہنچنی شروع ہو جاتی ہے۔ وہیں سے لوہا، گندھک، فاسفورس وغیرہ تمام چیزیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ایک خاص وزن اور خاص نسبت کے ساتھ وہاں جمع ہو کر لوتھڑا بنتی ہیں۔ پھر اس لوتھڑے میں جہاں آنکھیں بننی چاہیئیں وہاں آنکھیں بنتی ہیں، جہاں کان بننے چاہیئیں وہاں کان بنتے ہیں، جہاں دماغ بننا چاہیے وہاں دماغ بنتا ہے، جہاں دل بننا چاہیے وہاں دل بنتا ہے۔
ہڈی اپنی جگہ، گوشت اپنی جگہ، غرض ایک ایک پرزہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھتا ہے۔ پھر اس میں جان پڑ جاتی ہے۔ دیکھنے کی طاقت، سننے کی طاقت، چکھنے اور سونگھنے کی طاقت، بولنے کی طاقت، سوچنے اور سمجھنے کی طاقت، اور نہ جانے کتنی بے حدوحساب طاقتیں اس میں بھر جاتی ہیں۔ اس طرح جب انسان مکمل ہو جاتا ہے تو پیٹ کی وہی چھوٹی سی فیکٹری جہاں نو مہینے تک وہ بن رہا تھا، خود زور کر کے اسے باہر دھکیل دیتی ہے۔ اس فیکٹری سے ایک ہی طریقے پر لاکھوں انسان روز بن کر نکل رہے ہیں۔ مگر ہر ایک کا نمونہ جدا ہے، شکل جدا، رنگ جدا، آواز جدا، قوتیں اور قابلیتیں جدا، طبیعتیں اور خیالات جدا، اخلاق اور صفات جدا۔ ایک ہی ماں کے پیٹ سے نکلے ہوئے دو سگے بھائی تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ یہ ایک ایسا کرشمہ ہے جسے دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کرشمے کو دیکھ بھی جو شخص کہتا ہے کہ یہ کام کسی زبردست حکمت والے، زبردست قدرت والے، زبردست علم والے، اور بے نظیر کمالات والے اللہ کے بغیر ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے، یقینًا اس کا دماغ درست نہیں۔ اس کو عقلمند سمجھنا عقل کی توہین ہے۔ کم از کم میں تو ایسے شخص کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ کسی معقول مسئلے پر اس سے گفتگو کروں۔
توحید
اچھا، اب ذرا اور آگے چلیے۔ آپ میں سے ہر شخص کی عقل اس بات کی گواہی دے گی کہ دنیا میں کوئی کام بھی، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، کبھی باضابطگی و باقاعدگی کے بٖغیر نہیں چل سکتا جب تک کہ کوئی ایک شخص اس کا ذمہ دار نہ ہو۔ ایک مدرسہ کے دو ہیڈماسٹر، ایک محکمہ کے دو ڈائرکٹر، ایک فوج کے دو سپہ سالار، ایک سلطنت کے دو رئیس یا بادشاہ کبھی آپ نے سنے ہیں؟ اور کہیں ایسا ہو تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک دن کے لیے بھی انتظام ٹھیک ہو سکتا ہے؟ آپ اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اس کا تجربہ کرتے ہیں کہ جہاں کوئی کام ایک سے زیادہ آدمیوں کی ذمہ داری پر چھوڑا جاتا ہے وہاں سخت بدنظامی ہوتی ہے، لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، اور آخر ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹ کر رہتی ہے۔ انتظام، باقاعدگی، ہمواری اور خوش اسلوبی دنیا میں جہاں کہیں بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں لازمی طور پر کوئی ایک طاقت کرفرما ہوتی ہے، کوئی ایک ہی وجود بااختیار و اقتدار ہوتا ہے، اور کسی ایک کے ہاتھ میں سررشتہ ہوتا ہے۔ اس کے بغیر انتظام کا آپ تصور نہیں کر سکتے۔
یہ ایسی سیدھی بات ہے کہ کوئی شخص جو تھوڑی سی بھی عقل رکھتا ہو اسے ماننے میں تامل نہ کرے گا۔ اس بات کو ذہن میں رکھ کر ذرا اپنے گردوپیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ یہ زبردست کائنات جو آپ کے سامنے پھیلی ہوئی ہے، یہ کروڑوں سیارے جو آپ کو گردش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ زمین جس پر آپ رہتے ہیں، یہ چاند جو راتوں کو نکلتا ہے، یہ سورج جو صبح کو طلوع ہوتا ہے، یہ زہرہ، یہ مریخ، یہ عطارد، یہ مشتری اور یہ دوسرے بےشمار تارے جو گیندوں کی طرح گھوم رہے ہیں، دیکھیے، ان سب کے گھومنے میں کیسی سخت باقاعدگی ہے کبھی رات اپنے وقت سے پہلےآتی ہوئی آپ نے دیکھی؟کبھی دن وقت سے پہلے نکلتےدیکھا؟ کبھی چاند زمین سے ٹکرایا؟ کبھی سورج اپنا راستہ چھوڑ کر ہٹا؟ کبھی کسی اور ستارے کو آپ نے ایک بال برابر بھی اپنی گردش کی راہ سے ہٹتے ہوئے دیکھا یا سنا؟ یہ کروڑہا سیارے جن میں سے بعض ہماری زمین سے لاکھوں گنا بڑے ہیں اور بعض سورج سے بھی ہزاروں گنے بڑے، یہ سب گھڑی کے پرزوں کی طرح ایک زبردست ضابطے میں کسے ہوئے اور ایک بندھے ہوئے حساب کے مطابق اپنی اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ اپنے اپنے مقررہ راستے پر چل رہے ہیں۔ نہ کسی کی رفتار میں ذرہ برابر فرق آتا ہے، نہ کوئی اپنے راستے سے بال برابر ٹل سکتا ہے۔ ان کے درمیان جو نسبتیں قائم کر دی گئی ہیں، اگر ان میں ایک پل کے لیے بھی ذرا سا فرق آ جائے تو سارا نطامِ عالم برہم ہو جائے، جس طرح ریلیں ٹکراتی ہیں اسی طرح سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔
یہ تو آسمان کی باتیں ہیں۔ ذرا اپنی زمین اور اپنی ذات پر نظر ڈال کر دیکھیے۔ اس مٹی کی گیند پر یہ سارا زندگی کا کھیل جو آپ دیکھ رہے ہیں، یہ سب چند بندھے ہوئے ضابطوں کی بدولت قائم ہے۔ زمین کی کشش نے ساری چیزوں کو اپنے حلقے میں باندھ رکھا ہے۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اگر وہ اپنی گرفت چھوڑ دے تو سارا کارخانہ بکھر جائے، اس کارخانے میں جتنے کل پرزے کام کر رہے ہیں، سب کے سب ایک قاعدے کے پابند ہیں اور اس قاعدے میں کبھی فرق نہیں آیا۔ ہوا اپنے قاعدے کی پابندی کر رہی ہے، پانی اپنے قاعدے میں بندھا ہوا ہے، روشنی کے لیے جو قاعدہ ہے اس کی وہ مطیع ہے، گرمی اور سردی کے لیے جو ضابطہ ہے اس کی وہ غلام ہے۔ مٹی پتھر، دھاتیں، بجلی، اسٹیم، درخت، جانور، کسی میں یہ مجال نہیں کہ اپنی حد سے بڑھ جائے یا اپنی خاصیتیوں کو بدل دے یا اس کام کو چھوڑ دے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ پھر اپنی حد کے اندر، اپنے ضابطہ کی پابندی کرنے کے ساتھ اس کارخانے کے سارے پرزے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، سب اسی وجہ سے ہو رہا ہے کہ یہ ساری چیزیں اور ساری قوتیں مل کر کام کر رہی ہیں۔
ایک ذرا سے بیج کی ہی مثال لے لیجیے جس کو آپ زمین میں بوتے ہیں۔ وہ کبھی پرورش پا کر درخت بن ہی نہیں سکتا جب تک زمین اور آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کی پرورش میں حصہ نہ لیں۔ زمین اپنے خزانوں سے اس کو غذا دیتی ہے، سورج اس کی ضرورت کے مطابق اسے گرمی پہنچاتا ہے، پانی سے جو کچھ وہ مانگتا ہے وہ پانی دیتا ہے، ہوا سے جو کچھ وہ طلب کرتا ہے وہ ہوا دیتی ہے، راتیں اسے ٹھنڈک اور اوس بہم پہنچاتی ہیں، دن اسے گرمی پہنچا کر پختگی کی طرف لے جاتے ہیں، اس طرح مہینوں اور برسوں تک مسلسل ایک باقاعدگی کے ساتھ یہ سب مل جل کر اسے پالتے پوستے ہیں، تب جا کر کہیں درخت بنتا ہے اور اس میں پھل آتے ہیں۔ آپ کی یہ ساری فصلیں جن کے بل بوتے پر آپ جی رہے ہیں، انہی بےشمار مختلف قوتوں کے بالاتفاق کام کرنے ہی کی وجہ سے تیار ہوتی ہیں، بلکہ آپ خود زندہ اسی وجہ سے ہیں کہ زمین اور آسمان کی تمام طاقتیں متفقہ طور پر آپ کی پرورش میں لگی ہوئی ہیں۔
اگر تنہا ایک ہوا ہی اس متفقہ کاروبار سے الگ ہو جائے تو آپ ختم ہو جائیں۔اگر پانی ہوا اور گرمی کے ساتھ موافقت کرنے سے انکار کر دے تو آپ پر بارش کا ایک قطرہ نہ برس سکے۔ اگر مٹی پانی کے ساتھ اتفاق کرنا چھوڑ دے تو آپ کے باغ سوکھ جائیں، آپ کی کھیتیاں کبھی نہ پکیں اور آپ کے مکان کبھی نہ بن سکیں۔ اگر دیا سلائی کی رگڑ سے آگ پیدا ہونے پر راضی نہ ہو تو آپ کے چولہے ٹھنڈے ہو جائیں اور آپ کے سارے کارخانے یک لخت بیٹھ جائیں، اگر لوہا آگ کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کر دے تو آپ ریلیں اور موٹریں تو درکنار ایک سوئی اور چھری تک نہ بنا سکیں۔ غرض یہ ساری دنیا جس میں آپ جی رہے ہیں، یہ صرف اسی وجہ سے قائم ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے سارے محکمے کے کسی اہل کار کی یہ مجال نہیں ہے کہ اپنی ڈیوٹی سے ہٹ جائے یا ضابطہ کے مطابق دوسرے محکموں کے اہل کاروں سے اشتراکِ عمل نہ کرے۔
یہ جو کچھ میں آپ سے بیان کیا ہے، کیا اس میں کوئی بات جھوٹ یا خلافِ واقعہ ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی بھی اسے جھوٹ نہ کہے گا۔ اچھا، اگر یہ سچ ہے تو مجھے بتائیے کہ یہ زبردست انتظام، یہ حیرت انگیز باقاعدگی، یہ کمال درجہ کی ہمواری، یہ زمین و آسمان کی بے حدوحساب چیزوں اور طاقتوں میں کامل موافقت آخر کس وجہ سے ہے؟ کروڑوں برس سے یہ کائنات یونہی قائم چلی آ رہی ہے، لکھوکھا سال سے اس زمین پر درخت اگ رہے ہیں، جانور پیدا ہو رہے ہیں، اور نہ معلوم کب سے انسان اس زمین پر جی رہا ہے۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ چاند زمین پر گر جاتا یا زمین سورج سے ٹکرا جاتی، کبھی رات اور دن کے حساب میں فرق نہ آیا، کبھی ہوا کے محکمے کی پانی کے محکمے سے لڑائی نہ ہوئی۔ کبھی پانی مٹی سے نہ روٹھا، کبھی گرمی نے آگ سے رشتہ نہ توڑا۔ آخر اس سلطنت کے تمام صوبے، تمام محکمے، تمام ہرکارے اور کارندے کیوں اس طرح قانون اور ضابطے کی پابندی کیے چلے جا رہے ہیں؟ کیوں ان میں لڑائی نہیں ہوتی؟ کیوں فساد برپا نہیں ہوتا؟ کس چیز کی وجہ سے یہ سب ایک انتظام میں بندھے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھیے۔ کیا وہ یہ گواہی نہیں دیتا کہ ایک ہی اللہ اس ساری کائنات کا بادشاہ ہے، ایک ہی ہے جس کی زبردست طاقت نے سب کو اپنے ضابطے میں باندھ رکھا ہے؟ اگر دس بیس نہیں دو الٰہ بھی اس کائنات کے مالک ہوتے تو یہ انتظام اس بإقاعدگی کے ساتھ کبھی نہ چل سکتا۔ ایک ذرا سے مدرسے کا انتظام تو دو ہیڈماسٹروں کی ہیڈماسٹری برداشت نہیں کر سکتا، پھر بھلا اتنی بڑی زمین و آسمان کی سلطنت دو خداؤں کی خدائی میں کیسے چل سکتی تھی؟
پس واقعہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ دنیا کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بنی ہے، بلکہ یہ بھی واقعہ ہے کہ اس کا ایک ہی نے بنایا ہے، حقیقت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اس دنیا کا انتظام کسی حاکم کے بغیر نہیں چل رہا ہے، بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ حاکم ایک ہی ہے۔ انتظام کی باقاعدگی صاف کہہ رہی ہے کہ یہاں ایک کے سوا کسی کے ہاتھ میں حکومت کے اختیارات نہیں ہیں۔ ضابطہ کی پابندی منہ سے بول رہی ہے کہ اس سلطنت میں ایک حاکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔ قانون کی سخت گیری شہادت دے رہی ہے کہ ایک ہی بادشاہ کی حکومت زمین سے آسمان تک قائم ہے۔ چاند، سورج اور سیارے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ زمین اپنی تمام چیزوں کے ساتھ اسی کے تابع فرمان ہے۔ ہوا اسی کی غلام ہے، پانی اسی کا بندہ ہے، دریا اور پہاڑ اسی کے اختیار میں ہیں، درخت اور جانور اسی کے مطیع ہیں، انسان کا جینا اور مرنا اسی کے اختیار میں ہے، اس کی مضبوط گرفت نے سب کو پوری قوت کے ساتھ جکڑ رکھا ہے، کوئی اتنا زور نہیں رکھتا کہ اس کی حکومت میں اپنا حکم چلا سکے۔
درحقیقت اس مکمل تنظیم میں ایک سے زیادہ حاکموں کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ تنظیم کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ حکم میں ایک شمہ برابر بھی کوئی دوسرا حصہ دار نہ ہو۔ تنہا ایک حاکم ہو اور اس کے سوا سب محکوم ہوں کیونکہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں فرماں روائی کے ادنٰی سے اختیارات ہونے کے معنی بھی بدنظمی اور فساد کے ہیں۔ حکم چلانے کے لیے صرف طاقت ہی درکار نہیں ہے، علم بھی درکار ہے۔ اتنی وسیع نظر درکار ہے کہ تمام کائنات کو بیک وقت دیکھ سکے اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ کر احکام جاری کر سکے۔اگر خداوندِ عالم کے سوا کچھ چھوٹے چھوٹے خدا ایسے ہوتے جو نگاہ جہاں بیں تو نہ رکھتے، لیکن انہیں دنیا کے کسی حصے یا کسی معاملہ میں اپنا حکم چلانے کا اختیار حاصل ہوتا تو یہ زمین و آسمان کا سارا کارخانہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔ ایک معمولی مشین کے متعلق بھی آپ جانتے ہیں کہ اگر کسی ایسے شخص کو اس میں دخل اندازی کا اختیار دے دیا جائے جو اس سے پوری طرح واقف نہ ہو تو وہ اسے بگاڑ کر رکھ دے گا۔ لہٰذا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے اور زمین و آسمان کے نظامِ سلطنت کا انتہائی باضابطگی کے ساتھ چلنا اس کی گواہی دیتا ہے کہ اس سلطنت کے اختیاراتِ شاہی میں ایک اللہ سوا کسی کا ذرہ برابر حصہ نہیں ہے۔
یہ صرف ایک واقعہ ہی نہیں ہے، حق یہ ہے کہ اللہ کی خدائی میں خود اللہ کے سوا کسی کا حکم چلنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے۔جن کو اس نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے، جو اس کی مخلوق ہیں، جن کی ہستی اس کی عنایت پر قائم ہے، جو اس سے بےنیاز ہو کر خود اپنے بل بوتے پر ایک لمحہ کے لیے بھی موجود نہیں رہ سکتے، ان میں سے کسی کی یہ حیثیت کب ہو سکتی ہے کہ خدائی میں اس کا حصہ دار بن جائے؟ کیا کسی نوکر کو آپ نے ملکیت میں آقا کا شریک ہوتے دیکھا ہے؟ کیا آپ کی عقل میں یہ بات آتی ہے کہ کوئی مالک اپنے غلام کو اپنا ساجھی بنا لے؟ کیا خود آپ میں سے کوئی شخص اپنے ملازموں میں سے کسی کو اپنی جائیداد میں یا اپنے اختیارات میں حصہ دار بناتا ہے؟ اس بات پر جب آپ غور کریں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ اللہ کی اس سلطنت میں کسی بندے کو خودمختارانہ فرماں روائی کا کوئی حق حاصل ہی نہیں ہے۔ ایسا ہونا نہ صرف واقعہ کے خلاف ہے، نہ صرف عقل اور فطرت کے خلاف ہے، بلکہ حق کے خلاف بھی ہے۔