سفرِ کوئے یار(نئے اشعار اصلاح طلب)

علی معاھد

محفلین
(اہلیان ادب و قلم سے اصلاح کی گزارش ہے ۔ امید ہیکہ حوصلہ افزائی فرمائیں گے)

وہ یقیناً پہچنے والا ہے کوئے یار تک
جس نے طے کرلی مسافت قول سےکردارتک

پہلے رخصت سے عزیمت پھر عزیمت سے سفر
سہل سے دشوار تک ،دشوار سے پر خار تک

پار نکلے یا وہ ڈوبے یہ مقدر ہے مگر
قابل تحسین ہے جوآگیا منجدھار تک

ریت پر جلنا ،کہیں تیشہ ، کہیں نعرہءِ حق
عشق میں صد مرحلے ہیں درسے لیکر دار تک

چھوڑ کر ھم ان کو جو کہ قابل تعمیل ہیں
کھوج میں ہیں ان کی جن کے مٹ گئے آثار تک

کچھ ہوئے تہذیب نو سے قتل ، کچھ مجروح ہیں
کٹ گئے ھم،گرچہ نوبت آئی نہ تلوار تک

مختصر تر ہے کہانی دھر میں اقوام کی
ہاتھ کی چھنکار سے بس پاؤں کی چھنکار تک

رسم شبیری ادا کر آج پیرِخوارزم
اک ہی قصہ ہے شمر سے آج کے تاتار تک

قصہ مسجودیت تو بعد میں مذکور ہے
پہلے بک کے آنا ہوگا مصر کے بازار تک

اے گلو۔۔۔! اس روپ پر اتنا نہ کھل کھل کر ھنسو
دل دکھے گا بات جو پہنچی کسی بھی خار تک

فلسفے لکھنا علی دنیا میں کوئی فن نہیں
فن ہے: بندہ پہنچے دل کی بات کے اظہار تک
 
آخری تدوین:
Top