سعودی قطر اختلافات اور پاکستان

تاریخ: 9 جون، 2017
29vc5fl.jpg

سعودی قطر اختلافات اور پاکستان
تحریر: سید انور محمود

سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا،یمن اور مالدیپ نے دہشتگرد گروہوں کی مدد کرنے اور ہمسایہ ملکوں میں تخریبی سرگرمیوں کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بہت ہی جارحانہ انداز میں قطر سے اپنےسفارتی تعلقات ختم کرلیے اور قطر کے تمام سفارتی عملے کو 48 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ ان ممالک کا الزام ہے کہ قطر اخوان المسلمون کے علاوہ دیگر دہشتگرد تنظیموں کی حمایت کرتا ہےجس میں ایرانی حمایت یافتہ گروہ بھی شامل ہیں، قطر نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے تمام قطری شہریوں کو جو بطور سیاح یا کاروبار و ملازمت کے سلسلہ میں ان ملکوں میں موجود ہیں دو ہفتے کے اندر اپنے ملکوں سے نکلنے کا حکم دیا ہے۔ سعودی عرب نے قطر کو ’اسلامی فوجی اتحاد‘ سے بھی نکال دیا ہے۔ قطر یمن جنگ میں بھی سعودی عرب کا اتحادی ہے۔اس کے علاوہ سعودی عرب اور قطر کی سرحدیں بھی ملتی ہیں اور دونوں ممالک کے لوگ روزانہ کی بنیادوں پر دونوں طرف آتے جاتے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، جبکہ امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن اور ڈیفنس سیکریٹری جم میٹس کا کہنا تھا کہ انھیں چند خلیجی ممالک سے اس طرح کے فیصلے کی امید نہیں تھی کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو متاثر کرنے پر قطر کے ساتھ تعلقات ختم کرلیں گے، تاہم انھوں نے ان ممالک پر اپنے اختلافات کو دور کرنے پر زور دیا۔


سعودی عرب اور دوسرئے ممالک کے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کے بعدایک سیاسی بحران تو پیدا ہوا ہی ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک انسانی بحران بھی پیدا ہوا۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فضائی کمپنیوں نے دوحا کے لیے تمام پروازیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ بحرین اور مصر نے بھی قطر ایئرویز کے لیے اپنے ایرپورٹ بند کردیئے ہیں۔ ظاہر ہے ان تمام ملکوں کے ایرپورٹ پر وہ تمام مسافر پھنس گئے جو یا تو دوحا سے ان ممالک کو جارہے تھے یا ان ممالک سے دوحا آرہے تھے۔ سعودی عرب ، قطر اور باقی ممالک کو کم از کم 48 گھنٹے کا وقت ان ہزاروں مسافروں کو دینا چاہیے تھا جو اس سیاسی بحران سے بغیر کسی جرم کےمتاثر ہوئے ہیں۔ ان متاثرین میں سیکڑوں پاکستانی مسافر بھی شامل ہیں جو دوحا ایرپورٹ پر موجود ہیں، ان مسافرین میں عمرہ زائرین بھی شامل ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ قطر نے پاکستانی عمرہ زائرین کیلئے عمان ایئر کی خدمات حاصل کر لیں۔ خدا کرئے پاکستانی عمرہ زائرین عمرہ ادا کرکے جلد از جلدواپس وطن لوٹ آیں۔ عام مسافروں کے ساتھ یہ سلوک خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو انسانیت کے خلاف ہے۔

قطر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم رکن کے طور پر شامل رہا ہے اور اس وقت خلیج میں امریکی فوجوں کا اہم مرکز ہے۔ قطر کے العبید ائربیس میں علاقے میں جنگی صورتحال پر نظر رکھنے کےلئے امریکی سینٹرل کمانڈ موجود رہتی ہے اور یہاں دس ہزار امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔ایران نے قطر کے معاملے پر ہمسایہ ممالک کے درمیان مذاکرات پر زور دیا ہے،ترکی نے قطر اور عرب ممالک کے درمیان تنازع دور کرنے کے لئے مذاکرات پر زور دیتے ہوئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے، ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ قطر کے معاملے میں ہمسایہ ممالک مذاکراتی عمل شروع کریں تاکہ اختلافی امور کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے۔ اسرائیل نے عرب ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک وسیع اتحاد قائم ہوسکتا ہے جس میں اسرائیل بھی شامل ہوسکتا ہے، اسرائیلی وزیردفاع لیبرمین نے بھی قطر پر دہشتگردی کی حمایت کا الزام عائد کیا ہے۔

صرف پندرہ دن پہلےریاض میں 20 اور21 مئی 2017کو ہونے والی ’’عرب اسلامک امریکن کانفرنس‘‘ میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نہ صرف موجود تھے بلکہ وہ ان سربراہوں میں شامل تھے جن کی ملاقات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہوئی تھی۔ عرب اسلامک امریکن کانفرنس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایران پر خطے میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا۔ عمومی طور پر تو یہ کہا جارہا کہ سعودی قطر تعلقات خراب کرانے میں کچھ ہیکرز اور قطری میڈیا جس میں مشہور سیٹلائٹ نیوز نیٹ ورک الجزیرہ بھی شامل ہے ذمہ دار ہیں، ان سب نے قطر کے امیر کی جانب سے ایران اور اسرائیل کے حوالے سے جعلی بیانات شایع کیے یا ٹی وی پر دکھائے،جس کے بعد سعودی عرب میں ان ویب سائٹس کو بلاک کردیا گیا تھا، الجزیرہ کا لائسنس منسوخ کرتے ہوئے ملک میں اس کی نشریات پر پابندی عائد کردی گئی تھی، دوسرئے عرب ممالک نے بھی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ الجزیرہ سمیت قطری میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی۔ قطر نے ان بیانات کو جعلی قرار دیتے ہوئے شرمناک سائبر جرم قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود یہ سمجھا جاتا ہےکہ قطر کے حکمران سعودی شاہی خاندان کی بعض پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ لیکن شاید ’’عرب اسلامک امریکن کانفرنس‘‘ میں امریکہ صدرڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے خلاف سعودی عرب کی حمایت کے بعد ریاض کسی قسم کے اختلاف رائے کو قبول کرنے کےلئے تیار نہیں۔

قطر کے خلاف اقدامات سے لگتا ہے کہ صورت حال مزید شدت اختیار کرئے گی۔ تہران ، ریاض اور دوحا کے تعلقات نارمل ہونے میں کتنا عرصہ لگے گا اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد کا ان تینوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کو نارمل رکھنا ہی پاکستانی خارجہ پالیسی کی اصل کامیابی ہوگی۔نواز شریف کی حکومت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں لاکھوں پاکستانی کام کررہے ہیں جن کا بھیجا ہوا زرمبادلہ پاکستانی معیشت کےلیے انتہائی اہم ہے۔ اس کے علاوہ بھی سعودی عرب نے اپنے طور پر بھی پاکستان کی معاشی طور پر بہت مدد کی ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب اور قطر شریف خاندان کے ذاتی طور پر محسن بھی ہیں، نواز شریف اور ان کے خاندان کومصیبت کے وقت سعودی عرب نے پناہ دی تھی، قطر کے ساتھ اس خاندان کے تجارتی تعلقات ہیں جبکہ پانامہ لیکس کی وجہ سے بھی قطر اہم ہے۔ دوسری طرف ایران ہے جو ہمارا پڑوسی ہے اور ہمارئے اس سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں، ایران کےساتھ نہ صرف شام ، عراق اور قطر ہیں بلکہ چین بھی ایک طرح سے تہران کے ساتھ ہے اور کسی مزید کشیدہ صورت حال میں ماسکو بھی تہران کے ساتھ ہو گا۔ان حالات کی وجہ سے پاکستان کا غیر جانبدار رہنا بہت ضروری ہے لیکن یہ بہت ہی مشکل عمل ہوگا۔ پاکستان کے اس عمل کوواشنگٹن، بیجنگ، تہران، ریاض اور دوحا میں قبولیت بہت ہی مشکل سے ملے گی۔ اسلام آباد کو بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنا ہو گا، اگر حتمی طور پر پاکستان کو ایران اور سعودی عرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو اسلام آباد کا جھکاؤ ریاض کی طرف زیادہ ہوگا جو شاید سی پیک منصوبے کےلیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پارلیمینٹ کے پاس واپس جائے اور اس کا سہارا لے کر دونوں فریقوں کو یہ کہنے کی کوشش کرئے کہ ہم تصادم میں فریق نہیں بنیں گے، شاید پاکستانی حکومت کے لیے یہ ایک بہتر راستہ ثابت ہو۔
 
Top