فارسی شاعری سرو را ہمچو قدت شیوۂ رعنائی نیست - محمد فضولی بغدادی (مع ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
سرو را ہمچو قدت شیوۂ رعنائی نیست
ایں قدر ہست کہ او مثلِ تو ہرجائی نیست
(سرو کے پاس تیری طرح کی طرزِ رعنائی تو نہیں ہے لیکن کم سے کم اتنا ہے کہ وہ تیری طرح ہرجائی نہیں ہے۔)
سرو و گل تا ز قد و روئے تو دیدند شکست
باغباں را سر و برگِ چمن آرائی نیست
(سرو و گل نے جب تیرا قد اور چہرہ دیکھا تو وہ شرمسار ہو گئے، اب تو باغباں کو بھی چمن آرائی کا حوصلہ باقی نہیں رہا ہے۔)
ہمدمے چوں غمِ او نیست دمِ تنہائی
ہر کِرا ہست غمِ او غمِ تنہائی نیست
(تنہائی کے وقت اُس کے غم جیسا کوئی ہمدم نہیں ہے، اور جس کو اُس کا غم لاحق ہے اُسے تنہائی کا کوئی غم نہیں ہوتا۔)
اے دل ار عاشقی از طعنہ میندیش کہ ذوق
نتواں یافت ز عشقے کہ برسوائی نیست
(اے میرے دل! اگر تم عاشق ہو تو طعنوں کی فکر مت کیا کرو، کیونکہ جس عشق میں رسوائی نہ ہو وہ لذت اور ذوق سے محروم رہتا ہے۔)
اے کہ داری سرِ سودائے تجارت بے نفع!
ہیچ سرمایہ بہ از جوہرِ دانائی نیست
(اے کہ تمہارے سر پر بے نفع تجارت کا جنوں چھایا ہوا ہے، جان لو کہ دانائی کے جوہر سے بہتر کوئی سرمایہ نہیں ہے۔ یعنی تجارت کرنی ہے تو بے نفع اجناس کی تجارت کے بجائے علم کی تجارت کرو۔)
صبر در عشقِ تو کاریست پسندیدہ ولے
کردہ ام تجربہ کارِ منِ شیدائی نیست
(تیرے عشق میں صبر کرنا ہے تو اچھا کام لیکن میں نے کافی بار اس کا تجربہ کیا ہے اور یہ نتیجہ نکلا ہے کہ صبر مجھ جیسے شیدائی کا کام نہیں ہے۔)
مشَو از دیدۂ خونبارِ فضولی غائب
کہ درُو بے گلِ روئے تو شکیبائی نیست
(فضولی کی دیدۂ خونبار سے غائب مت ہو کیونکہ اُسے تیرے چہرے کے پھول کے بغیر صبر و شکیبائی نہیں ہے۔)
(محمد فضولی بغدادی)
 

حسان خان

لائبریرین
آذربائجانی مصور نجف قُلی زادہ کا بنایا ہوا فضولی (رح) کا نقش:
FUZULI.jpg
 
Top