سبحان اللہ

نور وجدان

لائبریرین
محمد کی میم بھی بڑی نرالی ہے ۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ یہ نقاش گر نے تب ہمیں دی، جب ہم افلاس میں تھے ۔ جب سے میم سے نسبت بنی ہے ۔ افلاس تو کہیں بھاگ گئی ہے ۔ سروری ملی ہے اور دولت کون چھوڑتا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہِ مبارک جوں جوں تصویر میں جھلکنے لگتی ہے، تصویر کا تعلق بوسیلہ میم المصور سے جڑ جاتا ہے ۔ یہ کمال کبھی بھی نہیں درود کے بنا نصیب ہوتا ہے ۔ خیال میں محبت ملتی جاتی ہے، خیال محبت پاتا ہے اور خیال محبت دیتا ہے ۔ جب سب کچھ یہاں نہیں ہے اور ہم محض خیال کی برق ہیں تو کیوں یہاں پر مستقل رہنے کا سوچ لیتے ہیں. خیال ملا، خیال نے وسیلہ بن کے دے دیا، جس کو جہاں سے ملا وہ خیال نے دیا ۔ بندہ تو نہیں جانتا کہ دولت ہے کیا ۔ دولت تو سکون ہے ۔ اک جھونپڑی میں بیٹھا شخص خیال ہوتے خیال میں جائے تو کیا ہوگا؟ نیستی کا عالم ہوگا! یہ جو ہستی کا مٹ جانا ۔ خیال کو باہم وصلت ہوجانا یہ نور کے نور سے رابطے ۔ برق کے برق سے سلسلے ۔ یہی سلسلہ جس کو سینہ بہ سینہ انتقال کہا جاتا ہے ۔ استقلال چاہیے امانت کو سنبھالنے میں ۔ جب امانتیں دی جاتی ہیں تو تقسیم روح کی شروع ہوجاتی ہے ۔ روح کی تقسیم محبت کی ضرب سے ہوتی ہے ۔ محبت اگر بے غرض ہو تو منتقل ہوتی ہے ساتھ اس خیال کے جو کہ بطور امانت کاتب نے دیا ہے یہ بھی اہم ہے کہ خدا نے ایسی امانتیں دیں مگر پہچان کا ذوق کسی کسی کو دیا ۔ جب تم دیتے ہو تو یہ نہ سوچو کہ تم دے رہے ۔ تمھاری اوقات نہیں ہے کہ تم کچھ دے سکو؟ تم تو خود ذات کے ہو ۔ ذات کا کام ہے دینا ہے ۔ یہ عین ذات ہے جو بانٹ رہی ہے ۔ جتنا دیا جاتا ہے اتنی دنیا کی خواہش نکل جاتی ہے ۔ ایسے اگر وقوع ہو جائے تو یہ مبارک بات ہے ۔ نیک و سعید روح وہ ہے جو اثر سے نکل جائے؟ شیطان کے اثر سے ۔ انسان تو محض متاثر ہوتا ہے اس کے بعد تاثر دم توڑ دیتا ہے ۔ یعنی تاثر کشش پیدا کرتا ہے ۔ اس کشش کو اچھی بات کے لیے رکھو اور اثر تو بس اللہ کا باقی رہتا ہے ۔ خدا کو بقا ہے ۔ وہ الحی القیوم ہے ۔ اندر وہی تو ہے اس کو برق صمیم خیال کرلو ۔ یہ شمع کی مانند جل رہی. کرنا تو اتنا ہوتا ہے کہ اپنے خیالات کی یکجائی کو جلا کے اس نور میں کود جانا ہوتا ہے وہ پھر مثل زیتون شاخوں کو ہرا بھرا کر دیتا ہے ۔ کہاں رہتی ہے بندے کی ذات؟ اس کی باقی رہتی ہے. باقی تو اس کی ذات نے رہنا ہے کہ بندے کو اوقات میں رہنا ہے ۔ شمس نے حجاب میں کب رہنا ہے ۔ کسی نے مستقل میں کب رہنا ہے ۔ سب بچھڑے اس کا خیال ہے ۔ برق سے برق ملا کے اس سے مل جاؤ ۔ بچھڑا یار خود ملے گا ۔ بچھڑا یار قربانی کے بعد تو ملتا ہے

سبحان اللہ! ذی ہست و ذیشان ہے وہ ذات جو اوج ثریا پر بلاتی ہے ۔ جو فاصلے مٹا کے سب نچھاور کرتی ہے ۔ خدا محسوس نہ ہوا تو پھر کیا ہوا؟ سبحان کس شے کے لیے کہا؟ کس چیز سے متاثر ہوئے؟ وہی کہ برتر و اعلی ہے عالیجناب سے بڑا کوئی نہیں ہے فقط اس واسطے احساس نے تشکیل دی ذات ۔ ذات کو دیکھا کہ وہ اعلی ہے تو کہا پناہ! کتنا حسین ہے خدا! مر گئے ہم! مارے گئے ہم! زلیخا نے انگلی کاٹی ۔ ہم نے جان قدموں میں رکھ دی ۔ جان دی تو اسکی ہوئی تو حق ادا نہ ہوا کہ اس کو خود سے تو کچھ نہ دے سکے ۔ اب اس کی بے نیازی سمجھ لگی تو پھر سبحان اللہ نکلا ۔ دیالو اس لیے دیتا ہے کہ وہ محبت کرنا جانتا ہے اسے لینے کی توقع نہیں ہے ۔ دیالو جیسی ذات بننا مشکل ہوتا ہے مگر کسی کو اس لیے دے دینا کہ دیالو نے کہا ۔ بس اسے نیاز چاہیے ۔ بندے کو عبد کہا گیا اس لیے ہے کہ وہ بے نیاز یے اور خدا تو بے نیاز ہے ۔ پھر حمد کبھی خود سے کہہ سکو گے؟ نعت کا طریقہ آئے گا؟ یہ سب اس کی نسبت ہے تو لین دین کا طریقہ اسی نیاز و بے نیازی پر ختم ہوجاتا ہے ۔ عبد فنا ہوجاتا ہے اور خدا رہ جاتا ہے تو پھر سبحان اللہ کون کہتا ہے؟
 
Top