سانحہ یا اتفاق

اسرار اظمی

محفلین
ہمارے ایک دوست ملک محمد اشرف صاحب نے سنہ ء 2007 میں ایک نجی سکول کھولا۔ افتتاحی تقریب میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا مگر کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا ہر ہم اس تقریب میں شرکت نہ کرسکے۔ کچھ عرصہ بعد کسی کام کی غرض سے ملک صاحب کے محلے جانا ہوا تو سوچا چلیں ملک صاحب کا سکول بھی دیکھ لیں اور انہیں مبارکباد بھی دے دی جائے۔
ملک صاحب ہمیں دیکھ کر کافی خوش ہوئے ۔ چائے کے دور کے بعد ملک صاحب نے ہمیں اپنا سکول دکھانے کی خواہش کی جس کا احترام کرتے ہوئے ہم بھی معائناتی جائزے کے لیے ان کے ساتھ ہولیے۔ اسی دوران ملک صاحب کو ایک فون کال آگئی اور وہ اُدھر مصروف ہوگئے اور ہم ایک کلاس روم کے دروازے کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ غالبآ دوئم کلاس تھی ایک 19 یا 20 سال کی بچی کلاس کواردو میں گنتی پڑھا رہی تھی۔ استانی بولتی اور بچے اس ہندسے کو دہراتے جارہے تھے۔ سب ٹھیک جارہا تھا کہ اچانک استانی نے ستائیس اور اٹھائیس کے پکارا ٹونٹی نائن بچوں نے بھی یہی ٹونٹی نائن ہی بولا۔ کچھ حیرت ہوئی اور مزید غور کیا تو استانی نے جب اڑتیس کےبعد تھرٹی نائن بولا تو کافی مایوسانہ سی حیرت ہوئی۔ فورٹی نائن کے بعد شائد ہم اس کو ٹوکتے مگر ملک صاحب فون کال سے فارغ ہو کر آگئے اور ہم سکول کی بقایا عمارت دیکھنے چل پڑے کیونکہ کلاس رومز اور پڑھنے پڑھانے پر غور کرنے میں دلچسپی ختم ہوچکی تھی۔
آف روم میں واپسی پر ہم نے ملک صاحب سے اس بات کا زکر کیا تو ملک صاحب بولے
مطلب تو گنتی پڑھانے سکھانے سے ہے اب ٹیچر انتیس پڑھائے یا ٹونٹی نائن بات تو ایک ہی ہے۔ میٹرک پاس بچی ہے اس کا بھی روزگار لگا ہے اور ہماری بھی دال روٹی چل رہی ہے اور بچے بھی علم سے مستفید ہورہے ہیں
ہم آج تک اسی سوچ میں ہیں کہ کیا اتفاق تھا یا اردو زبان کے ساتھ کوئی سانحہ
 
Top