سانحہ جوزف کالونی کی ان کہی سچائیاں

عسکری

معطل
ضرور مارتے ہوں گے مگر اب جو شدت اس مذہبی تعصب میں ہے پہلے کبھی نہیں دیکھی اس اسانتہا پر ہے وہ بھی پہلے نہیں تھی
غلط آپ کو ہسٹری آف ریلیجس وارز کا مطالعہ کرنا چاہیے سسٹر ۔ مذہب اور خون کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر مذہب نے خون کو بہانا مختلف ہیلے بہانوں سے الاؤڈ کیا مختلف ناموں سے پر خوب مذہب نے پیدا ہوتے ہی بہانا شروع کر دیا تھا ۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
غلط آپ کو ہسٹری آف ریلیجس وارز کا مطالعہ کرنا چاہیے سسٹر ۔ مذہب اور خون کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر مذہب نے خون کو بہانا مختلف ہیلے بہانوں سے الاؤڈ کیا مختلف ناموں سے پر خوب مذہب نے پیدا ہوتے ہی بہانا شروع کر دیا تھا ۔
بات پھر وہیں آجاتی ہے کوئی بھی مذہب تشدد کا پرچار نہیں کرتا جنگ مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر سیاست کا نتیجہ ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ اپنی نوعیت کا کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ۔ اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات ملکِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوتے رہے ہیں ۔ مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں کے دور میں یہ فریضہ انجام دیا جاتا رہا ہے ۔ پھر اس کا نیا ورژن طالبان کی صورت میں آیا ۔ انہوں نے تو غیرمسلم تو دور کی بات اپنے عقائد سے مختلف لوگوں کو قصابی کے وہ جوہر دکھلائے کہ تاتاریوں کی بھی روح شرما گئی ۔ علماء کا اس تفریق میں نمایاں کردار رہا ہے کہ انہوں نے مسلم ریاست کا ایک الگ تصور دیکر اقلیتیوں کو دوسرے درجے پر براجمان کردیا ۔ یعنی ایک ہی ملک میں وہ سب اپنے مذہب کی بنیاد پر دوسرے درجے کی قوم قرار پائے ۔ کسی عالم نے اس بات کی مذمت نہیں کہ اور جس نے کی ان کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ اس رحجان میں گذشتہ تین دہائیوں سے ایک مختلف سوچ رکھنے والی قوم کی پرورش ہوئی ۔ جس کا عقیدہ صرف یہی ہے کہ وہ ہی 72 فرقوں میں برتراور حق پر ہیں ۔ اور ہر فرقہ اسی سوچ کا ضامن رہا ہے ۔ بیروزگاری ، تعلیم سے محرومی ، شدت پسندی سے مانوس ،مذہب سے بیزاریت اور مستقبل کی غیر یقینی تسلسل میں لوگوں نے چند روپوں کے عوض لوگوں کی جان سے کھیلنا شروع کردیا ۔ اقتدار کی کرسی سے لیکر چھوٹے چھوٹے بیابانوں اور میدانوں میں قبضے کی وہ جنگ شروع ہوئی کہ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ پڑوسی پڑوسی کیساتھ کیا سلوک روا رکھتا ہے ۔ لوگ باہر جانے سے گریز کرتے تھے کہ باہر جان کو خطرہ ہے ۔ اب لوگ اپنے گھروں اور فلیٹوں میں بیٹھے ہوئے بھی جہانِ فانی سے رخصت ہورہے ہیں ۔ مگر ہماری مسلسل انگلی ایوانوں کی طرف اٹھی ہوئی ہے کہ یہ سب ان کا کیا دھرا ہے ۔ یہ لوگ آپ کی ایما پر آئے ہیں ۔ آپ نے ان کے کندھے تھپتپائے ہیں ۔ بنیادی طور پر ہم ہی سارے فساد کی جڑ ہیں ۔ اگر اس بات کوئی کوئی مزاح میں لیتا ہے تو سیاست اور مذہب پر مختلف مکاتبِ فکر نے ایک دوسرے پرجو گُُل برسائے ہیں پہلےان کا نظارہ کرے کہ یہاں اس قسم کے واقعات پر عدم برداشت کی کیا کیا مثالیں قائم ہوئیں ہیں ۔ جو لوگ ایسے واقعات میں ملوث ہیں وہ ہم سے مختلف نہیں ۔ بس فرق اتنا ہے کہ ان کو موقع مل گیا اور ہم شاید موقع کی تلاش میں ہے۔
 
Top