حسان خان
لائبریرین
ز پیشم رفتی و من بهرِ آن رفتار میمیرم
قدم را رنجه فرما آه ورنه زار میمیرم
تویی سُلطانِ حُسن و نیستت بر بندهها رحمی
طبیبِ دردمندانی و من بیمار میمیرم
گه از تابِ خمِ زُلفت به خود چون مُوی میپیچم
گهی از حسرتِ آن لعلِ شکّربار میمیرم
لبت از سِحر و افسُون چند رنجد ای طبیبِ جان
حدیثی گو که من از بهرِ آن گُفتار میمیرم
سلیمی هر گه آن مه میرود جانم نمیمانَد
ندارم بهرهای از زندگی ناچار میمیرم
(سلطان سلیم خان اول)
تم میرے پیش میں سے چلے گئے، اور میں [تمہاری] اُس طرزِ خِرام کے لیے مر رہا ہوں۔۔۔ آہ! [اپنے] قدم کو [میری جانب] رنجہ فرماؤ، ورنہ میں زاری کے ساتھ مر جاؤں گا۔
تم سُلطانِ حُسن ہو، لیکن تم کو غُلاموں پر کوئی رحم نہیں ہے۔۔۔ تم طبیبِ دردمنداں ہو، لیکن میں بیمار مر رہا ہوں۔
گاہے میں تمہاری زُلف کے خم کے تاب سے بال کی طرح خود میں لِپٹتا ہوں (یعنی اذیّت میں مُبتلا ہوتا ہوں)۔۔۔ گاہے میں [تمہارے] اُس لعل جیسے لبِ شَکَربار کی حسرت سے مرتا ہوں۔
اے طبیبِ جاں! تمہارا لب جادو و افسُوں سے کب تک رنجیدہ ہو گا؟ (یعنی تم کب تک جادو و افسُوں کہو گے؟)۔۔۔ کوئی بات کہو، کہ میں [تمہاری] اُس گُفتار کے لیے مر رہا ہوں۔
اے 'سلیمی'! جس وقت بھی وہ ماہ جاتا ہے، میری جان نہیں رہتی۔۔۔ میں زندگی سے کوئی بہرہ رکھے بغیر چار و ناچار مرتا ہوں (مرنے لگتا ہوں)۔
قدم را رنجه فرما آه ورنه زار میمیرم
تویی سُلطانِ حُسن و نیستت بر بندهها رحمی
طبیبِ دردمندانی و من بیمار میمیرم
گه از تابِ خمِ زُلفت به خود چون مُوی میپیچم
گهی از حسرتِ آن لعلِ شکّربار میمیرم
لبت از سِحر و افسُون چند رنجد ای طبیبِ جان
حدیثی گو که من از بهرِ آن گُفتار میمیرم
سلیمی هر گه آن مه میرود جانم نمیمانَد
ندارم بهرهای از زندگی ناچار میمیرم
(سلطان سلیم خان اول)
تم میرے پیش میں سے چلے گئے، اور میں [تمہاری] اُس طرزِ خِرام کے لیے مر رہا ہوں۔۔۔ آہ! [اپنے] قدم کو [میری جانب] رنجہ فرماؤ، ورنہ میں زاری کے ساتھ مر جاؤں گا۔
تم سُلطانِ حُسن ہو، لیکن تم کو غُلاموں پر کوئی رحم نہیں ہے۔۔۔ تم طبیبِ دردمنداں ہو، لیکن میں بیمار مر رہا ہوں۔
گاہے میں تمہاری زُلف کے خم کے تاب سے بال کی طرح خود میں لِپٹتا ہوں (یعنی اذیّت میں مُبتلا ہوتا ہوں)۔۔۔ گاہے میں [تمہارے] اُس لعل جیسے لبِ شَکَربار کی حسرت سے مرتا ہوں۔
اے طبیبِ جاں! تمہارا لب جادو و افسُوں سے کب تک رنجیدہ ہو گا؟ (یعنی تم کب تک جادو و افسُوں کہو گے؟)۔۔۔ کوئی بات کہو، کہ میں [تمہاری] اُس گُفتار کے لیے مر رہا ہوں۔
اے 'سلیمی'! جس وقت بھی وہ ماہ جاتا ہے، میری جان نہیں رہتی۔۔۔ میں زندگی سے کوئی بہرہ رکھے بغیر چار و ناچار مرتا ہوں (مرنے لگتا ہوں)۔
آخری تدوین: