زیست جہاں میں آنے کا دروازہ ہے غزل نمبر 88 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
زیست جہاں میں آنے کا دروازہ ہے
موت عدم میں جانے کا دروازہ ہے

کاش عبادت کرلیتا میں جیتے جی
مرکر کیا لوٹ آنے کا دروازہ ہے؟


اپنے گناہوں پر بہت نادم ہوں میں
کیا ماضی میں جانے کا دروازہ ہے؟

روزِ قیامت تک جینا ہے کیا کوئی؟
عُمرِ دائم پانے کا دروازہ ہے


رند ہیں سارے تری نصیحت کون سنے؟
زاہد یہ میخانے کا دروازہ ہے

اپنی جان بھی دیتا ہے جس چوکھٹ پر
شمع وہ پروانے کا دروازہ ہے

جاتے ہیں مر مر کر لوگ اسی جانب
شہر میں اک ویرانے کا دروازہ ہے

دل کی راہیں ذکرِ حق سے کھلتی ہیں
رب کا نام خزانے کا دروازہ ہے

اس در پر جھکتے دیکھا ہے شاہوں کو
شارؔق یہ دیوانے کا دروازہ ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
زیست جہاں میں آنے کا دروازہ ہے
موت عدم میں جانے کا دروازہ ہے

بقول شاعر:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام_ زندگی
ہے یہ شام_ زندگی صبح _دوام _زندگی

دوسرے مصرع کو بدل دیں۔اس طرح:

موت جہاں سے جانے کا دروازہ ہے


کاش عبادت کرلیتا میں جیتے جی
مرکر کیا لوٹ آنے کا دروازہ ہے؟

خوب۔
"مر کے کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔" بھی کر سکتے ہیں۔

اپنے گناہوں پر بہت نادم ہوں میں
کیا ماضی میں جانے کا دروازہ ہے؟

پہلا مصرع موزوں کردیں :"بہت" کی جگہ "بے حد" کر دیں۔اور "ماضی میں" کو "ماضی کو" سے بدل دیں۔
---------------
روزِ قیامت تک جینا ہے کیا کوئی؟
عُمرِ دائم پانے کا دروازہ ہے


رند ہیں سارے تری نصیحت کون سنے؟
زاہد یہ میخانے کا دروازہ ہے

اپنی جان بھی دیتا ہے جس چوکھٹ پر
شمع وہ پروانے کا دروازہ ہے
--------------------
میرے خیال سے مندرجہ بالا تینوں اشعار میں ردیف نبھ نہ سکی آپ سے۔

جاتے ہیں مر مر کر لوگ اسی جانب
شہر میں اک ویرانے کا دروازہ ہے

اچھا ہے۔

دل کی راہیں ذکرِ حق سے کھلتی ہیں
رب کا نام خزانے کا دروازہ ہے

خزانے کی رعایت سے پہلے مصرع میں کوئی بات کریں ۔

اس در پر جھکتے دیکھا ہے شاہوں کو
شارؔق یہ دیوانے کا دروازہ ہے

"اس" اور "یہ" سے کونسا دیوانہ مراد ہے ۔نامکمل بات لگتی ہے۔
 

امین شارق

محفلین
زیست جہاں میں آنے کا دروازہ ہے
موت عدم میں جانے کا دروازہ ہے

بقول شاعر:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام_ زندگی
ہے یہ شام_ زندگی صبح _دوام _زندگی

دوسرے مصرع کو بدل دیں۔اس طرح:

موت جہاں سے جانے کا دروازہ ہے


کاش عبادت کرلیتا میں جیتے جی
مرکر کیا لوٹ آنے کا دروازہ ہے؟

خوب۔
"مر کے کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔" بھی کر سکتے ہیں۔

اپنے گناہوں پر بہت نادم ہوں میں
کیا ماضی میں جانے کا دروازہ ہے؟

پہلا مصرع موزوں کردیں :"بہت" کی جگہ "بے حد" کر دیں۔اور "ماضی میں" کو "ماضی کو" سے بدل دیں۔
---------------
روزِ قیامت تک جینا ہے کیا کوئی؟
عُمرِ دائم پانے کا دروازہ ہے


رند ہیں سارے تری نصیحت کون سنے؟
زاہد یہ میخانے کا دروازہ ہے

اپنی جان بھی دیتا ہے جس چوکھٹ پر
شمع وہ پروانے کا دروازہ ہے
--------------------
میرے خیال سے مندرجہ بالا تینوں اشعار میں ردیف نبھ نہ سکی آپ سے۔

جاتے ہیں مر مر کر لوگ اسی جانب
شہر میں اک ویرانے کا دروازہ ہے

اچھا ہے۔

دل کی راہیں ذکرِ حق سے کھلتی ہیں
رب کا نام خزانے کا دروازہ ہے

خزانے کی رعایت سے پہلے مصرع میں کوئی بات کریں ۔

اس در پر جھکتے دیکھا ہے شاہوں کو
شارؔق یہ دیوانے کا دروازہ ہے

"اس" اور "یہ" سے کونسا دیوانہ مراد ہے ۔نامکمل بات لگتی ہے۔
یاسر شاہ صاحب بہت شکریہ آپ نے میری غزل کو اپنی رہنمائی کے قابل جانا۔
آپ نے کہا "موت جہاں سے جانے کا دروازہ ہے" ٹھیک ہے میں تبدیل کردیتا ہوں لیکن
"موت عدم میں جانے کا دروازہ ہے" اسمیں کیا غلطی ہے وضاحت چاہتا ہوں۔

سنتے آئے ہیں کہ بس اک آبِ حیات
عُمرِ دائم پانے کا دروازہ ہے
کیا اب ردیف نبھ سکی؟

تسبیح پڑھتے پڑھتے رستہ بھول گئے
زاہد یہ میخانے کا دروازہ ہے
کیا اب یہ ٹھیک ہے؟

جان فدا کر کے ملتے ہیں اپنوں سے
شمع اک پروانے کا دروازہ ہے
اب بھی صحیح نہیں۔

ذکرِ حق سے مل جاتی ہے رب کی وِلا
رب کا نام خزانے کا دروازہ ہے
اب دیکھیں۔

شارؔق جھکتے دیکھا اس جا شاہوں کو
یہ رب کے دیوانے کا دروازہ ہے
کیا اب بات مکمل ہے؟
 

یاسر شاہ

محفلین
آپ نے کہا "موت جہاں سے جانے کا دروازہ ہے" ٹھیک ہے میں تبدیل کردیتا ہوں لیکن
"موت عدم میں جانے کا دروازہ ہے" اسمیں کیا غلطی ہے وضاحت چاہتا ہوں۔
اس کی وضاحت میں کر چکا ہوں بھائی۔
بقول شاعر:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام_ زندگی
ہے یہ شام_ زندگی صبح _دوام _زندگی
عدم سے مراد اختتام لی جاتی ہے اور یہ آپ کا بھی عقیدہ نہیں۔

سنتے آئے ہیں کہ بس اک آبِ حیات
عُمرِ دائم پانے کا دروازہ ہے
کیا اب ردیف نبھ سکی؟
ردیف تو نبھ گئی مگر صرف ردیف نبھانے کے لیے شعر کا تکلف کرنا ٹھیک نہیں۔
تسبیح پڑھتے پڑھتے رستہ بھول گئے
زاہد یہ میخانے کا دروازہ ہے
کیا اب یہ ٹھیک ہے؟

تسبیح سے وزن میں گڑبڑ ہو رہی ہے۔
یوں کر دیں:
اللہ اللہ کرتےکہاں آ نکلے ہو؟
زاہد یہ میخانے کا دروازہ ہے

جان فدا کر کے ملتے ہیں اپنوں سے
شمع اک پروانے کا دروازہ ہے
اب بھی صحیح نہیں۔

ذکرِ حق سے مل جاتی ہے رب کی وِلا
رب کا نام خزانے کا دروازہ ہے
اب دیکھیں۔

دونوں اب بھی مجھے ٹھیک نہیں لگے۔ولا کیا ہے؟

شارؔق جھکتے دیکھا اس جا شاہوں کو
یہ رب کے دیوانے کا دروازہ ہے
اب ٹھیک ہے۔
 
Top