زیرِ بامِ گنبدِ خضرا اذاں؟

غزل
زیرِ بامِ گنبدِ خضرا اذاں ؟
وہ بلالی صوت، وہ سامع کہاں

کھوجتا ہے اَن گنت مسجود میں
قل ھو اللہ احد کا سائباں

بت تراشی چار سو ہے جلوہ گر
دے گئی سب کی جبینوں کو نشاں

یاسیت نے کرب کے در وا کئے
خشک امیدوں کا گلشن ہے یہاں

تو رہین ِ ِ خانہ ہائے اضطراب
اٹھ رہا ہے تیرے چلمن سے دھواں

ظلمتیں سایہ فگن ہیں ہر طرف
بام و در پر رقص میں نو میدیاں

رُک ذرا ، پڑھ کلمہء لا تقنطو
خود بخود روزن کھلیں گے درمیاں

حوصلوں کے پھر سے اُگ آئیں گے پر
عزم ِ محکم کو بنا لے سائباں

ذوالفقار نقوی
قل ہو اللہ احد ۔۔۔۔۔ یہاں شعری ضرورت کے لئے اللہُ کو اللہٗ پڑھنا پڑ رہا ہے۔ جو میرے نزدیک درست نہیں ہے۔
لاتقنطوا ۔۔۔۔ یہاں خالی الف املاء کا لازمی حصہ ہے، اس کا حذف کسی طور بھی درست نہیں۔
بقیہ تحفظات بدستور!
 
Top