یوسف سلطان
محفلین
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
حالانکہ درِیں اثنا کیاکچھ نہیں دیکھا ہے
پرلکھے توکیالکھے ؟ اورسوچے توکیاسوچے؟
کچھ فکر بھی مبہم ہے ‘ کچھ ہاتھ لرزتا ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
دیوانی نہیں اتنی‘ جو منہ میں ہو بک جائے
چپ شاہ کا روزہ بھی‘ یونہی نہیں رکھا ہے
بوڑھی بھی نہیں اتنی‘ اس طرح وہ تھک جائے
اب جان کے اس نے یہ اندازبنایاہے
ہرچیزبھلاوے کے صندوق میں رکھ دی ہے
آسانی سے جینے کااچھایہ طریقہ ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
گھر بار سمجھتی تھی ‘ قلعہ ہے حفاظت کا
دیکھا کہ گرہستی بھی مٹی کاکھلوناہے
مٹی ہو کہ پتھرہو‘ ہیراہوکہ موتی ہو
گھربارکے مالک کا‘ گھربارپہ قبضہ ہے
احساسِ حکومت کے اظہارکاکیاکہنا
انعام ہے مذہب کا‘جوہاتھ میں کوڑاہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
دیوار پہ ٹانگا تھا فرمان رفاقت کا
کیا وقت کے دریا نے دیوار کو ڈھایا ہے
فرمانِ رفاقت کی تقدیس بس اتنی ہے
اک جُنبش لب پر ہے ،رشتہ جو ازل کا ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
دو بیٹوں کو کیا پالا ناداں یہ سمجھتی تھی
اس دولت دنیا کی مالک وہی تنہا ہے
پر وقت نے آئینہ کچھ ایسا دکھایا ہے
تصویر کا یہ پہلو اب سامنے آیا ہے
بڑھتے ہوئے بچوں پر کُھلتی ہوئی دنیا
کُھلتی ہوئی دنیا کا ہر باب تماشہ ہے
ماں باپ کی صورت تو دیکھا ہوا نقشہ ہے
دیکھے ہوئے نقشے کا ہر رنگ پرانا ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
سوچا تھا بہن بھائی دریا ہیں محبت کے
دیکھا کے کھبی دریا رستہ بھی بدلتا ہے
بھائی بھی گرفتارِ مجبورئ خدمت ہیں
بہنوں پہ بھی طاری ہے قسمت کا جو لکھا ہے
اک ماں ہے جو پیڑوں سے باتیں کیے جاتی ہے
کہنے کو ہیں دس بچے اور پھر بھی وہ تنہا ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
محترمہ زہرا نگاہ
حالانکہ درِیں اثنا کیاکچھ نہیں دیکھا ہے
پرلکھے توکیالکھے ؟ اورسوچے توکیاسوچے؟
کچھ فکر بھی مبہم ہے ‘ کچھ ہاتھ لرزتا ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
دیوانی نہیں اتنی‘ جو منہ میں ہو بک جائے
چپ شاہ کا روزہ بھی‘ یونہی نہیں رکھا ہے
بوڑھی بھی نہیں اتنی‘ اس طرح وہ تھک جائے
اب جان کے اس نے یہ اندازبنایاہے
ہرچیزبھلاوے کے صندوق میں رکھ دی ہے
آسانی سے جینے کااچھایہ طریقہ ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
گھر بار سمجھتی تھی ‘ قلعہ ہے حفاظت کا
دیکھا کہ گرہستی بھی مٹی کاکھلوناہے
مٹی ہو کہ پتھرہو‘ ہیراہوکہ موتی ہو
گھربارکے مالک کا‘ گھربارپہ قبضہ ہے
احساسِ حکومت کے اظہارکاکیاکہنا
انعام ہے مذہب کا‘جوہاتھ میں کوڑاہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
دیوار پہ ٹانگا تھا فرمان رفاقت کا
کیا وقت کے دریا نے دیوار کو ڈھایا ہے
فرمانِ رفاقت کی تقدیس بس اتنی ہے
اک جُنبش لب پر ہے ،رشتہ جو ازل کا ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
دو بیٹوں کو کیا پالا ناداں یہ سمجھتی تھی
اس دولت دنیا کی مالک وہی تنہا ہے
پر وقت نے آئینہ کچھ ایسا دکھایا ہے
تصویر کا یہ پہلو اب سامنے آیا ہے
بڑھتے ہوئے بچوں پر کُھلتی ہوئی دنیا
کُھلتی ہوئی دنیا کا ہر باب تماشہ ہے
ماں باپ کی صورت تو دیکھا ہوا نقشہ ہے
دیکھے ہوئے نقشے کا ہر رنگ پرانا ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
سوچا تھا بہن بھائی دریا ہیں محبت کے
دیکھا کے کھبی دریا رستہ بھی بدلتا ہے
بھائی بھی گرفتارِ مجبورئ خدمت ہیں
بہنوں پہ بھی طاری ہے قسمت کا جو لکھا ہے
اک ماں ہے جو پیڑوں سے باتیں کیے جاتی ہے
کہنے کو ہیں دس بچے اور پھر بھی وہ تنہا ہے
زہرا نے بہت دن سے کچھ بھی نہیں لکھا ہے
محترمہ زہرا نگاہ