زمین لگتی نہیں آسماں نہیں لگتا۔۔ و دیگر بغرض تنقید

شاہد شاہنواز

لائبریرین
وہ اشعار تو اشعار ہی نہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا تھا، سو میرے لیے یہ بحث مستقبل کے لیے تو فائدہ مند ہے، فی الحال تو میں مرحوم ہونے والے اشعار کے غم میں نڈھال ہوں۔۔۔
آپ کی اس علمی بحث سے اپنا ہی ایک شعر یاد آگیا۔۔۔
بحث اس پہ چل نکلی، کس نے اس کو مارا ہے
جس کی جاں بچانی تھی، اس کی جان جانے تک
 
شعر مرحوم نہیں ہوا کرتا جناب شاہد شاہنواز صاحب۔

کہیں الفاظ کی در و بست آپ کو یا آپ کے قاری کو مطمئن نہیں کر پاتی تو یہ مت سمجھئے کہ آپ کا تخیل، تاثر، ادراک، سب کچھ ہوا ہو گیا۔ خیال اور مضمون شاعر کے لاشعور میں پکتا رہتا ہے اور ایک وقت پر پھر الفاظ کے جامے میں آتا ہے تو کہیں زیادہ سج دھج کے ساتھ آتا ہے۔
 
میرا طریقہ تو یہ ہے کہ کہیں ایک بات جو میں شعر میں کہنا چاہ رہا ہوں، کہہ نہیں پاتا تو اس کو ’’نیم فراموش‘‘ کر دیتا ہوں۔ اور ایسا کئی بار ہوا کہ وہی بات جب شعر کی صورت میں آئی تو خود مجھے بھی بھلی لگی۔ ایسی ہی ایک صورتِ حال کا شعر پیش کر رہا ہوں۔

وقتِ رخصت پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں​
اشک جتنے تھے ترے آنے پہ جگنو کر دئے​
’’جگنو‘‘ قافیہ ہے۔​

آداب۔
 
جناب الف عین بہت عمدہ بات کر چکے، مختصر اور جامع۔

پہلی غزل درست تو ہے، بس مطلع اور مقطع دیکھ لو۔ مطلع میں زمین و آسماں کیا نہیں لگتے، اس کی صراحت ضروری ہے۔​
مقطع میں بہت ابہام ہے، یا میں ہی سمجھ نہیں سکا۔​
قیامت ہے ردیف کی پوری غزل کمزور ہے، اس کو تو چھوڑ ہی دو تو بہتر ہے۔​
آخری غزل کے بھی تینوں اشعار میں کچھ نہ کچھ کمزوری یا ابہام ہے، ان کو بھی خود ہی دیکھو۔​

’’خیر الکلام ما قل و دل‘‘ ۔ اِس پر کوئی اضافہ نہ کر سکوں گا۔
 
Top