زعفران کے خواص ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

زعفران کے خواص ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

کارگل سانحہ کے بعد سرزمین کشمیر ساری دنیا کے لئے عموماً اور ہندوستان وپاکستان کے لئے خصوصاً موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔ وادی کشمیر جسے شہنشاہ جہانگیر نے ’’ فردوس بروئے زمین ‘‘ کہا تھا سچ پوچھئے تو یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد سے آج تک حصہ کشمیر ہند پاک تصادم کی صورت میں ہزاروں انسانی جانیں جام شہادت نوش کرتی جارہی ہیں۔ لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اسی تنازعہ حصہ کشمیر جو سرزمین ہند کے قبضہ میں ہے صرف دو مقامات پامپور اور کشٹواڑ ضلع ڈوڈہ ہیں جہاں زعفران کا پودا اگتا ہے ۔ بلکہ ہزاروں کوششوں کے باوجود آج تک زعفران کے پودوں کو کہیں اور اُگانے میں ناکام ہیں ۔ البتہ اس کی کاشت اسپین ‘ایران‘ فرانس‘ سسلی اور اٹلی میں بھی ہوتی ہے لیکن کشمیری زعفران اپنی مثال آپ ہے ۔

زعفران کو کوئم یا کیسر Saffron کہا جاتا ہے اور اسکا نباتی نامCrocus Sativus ہے زعفران کا پودا عموماً15 تا25 سنٹی میٹر لمبا ہوا کرتا ہے ۔ زعفران کے پھول زرد رنگ کے نہایت ہی خوشبودار دلفریب اور اسکی جڑپیاز کے مانند ہوتی ہے ۔ پھول کے اندر پایا جانے والا ریشہ خشک حالت میں ا اور زرگل زعفران کے نام سے بازاروں میں دستیاب رہتا ہے ۔ اصلی زعفران ہوتوا س سے نہایت ہی دلفریب خوشبو مہکتی ہے ۔ زعفران کا ہر ایک ریشہ قریب قریب ایک سنٹی میٹر لمبا رہتا ہے ۔ اور اس کے سرے پر تین دبیز موٹے موٹے نارنجی رنگ کے زیرے بھی پائے جاتے ہیں زعفران کا مزاج گرم وخشک ہوتا ہے ۔
وادی کشمیر جسے پھولوں کا مسکن بھی کہتے ہیں موسم بہار کے آتے ہی وادی کشمیر میں ہمہ اقسام کے پھول کچھ اس طرح مہک اٹھتے ہیں کہ ساری وادی ایک گلدستہ نایاب نظر آنے لگتی ہے ۔اللہ رب العزت نے اپنے فضل بے پایاں سے کشمیر جیسی سرزمین سے ہم عاصیوں کو نواز کر جو احسانات کئے ہیں اس پر شکر خدا وندی بجالانے کے بجائے یہی سرزمین افسوس کہ تقسیم ہند کے باعث مسلسل تصادم کا شکار ہو کر معصوم انسانی جانوں کو جام شہادت نوش فرمانے پر مجبور کررکھا ہے ۔
وادی کشمیر کے ہمہ اقسام کے پھولوں میں ایک پھول ایسا بھی ہے جو بر صغیر ہندوستان وپاکستان میں سوائے جموں وکشمیر کے کہیں اس کی پیداوار آج تک ناممکن بنی ہوئی ہے اور اس کا نام زعفران یاکیسر ہے ۔ ریاست جموں وکشمیر کے صرف دو مقامات پامپور جو سری نگر سے 81میل کے فاصلے پر واقع ہے اور ضلع ڈوڈہ کے علاقہ گنٹواڑ میں ہی زعفران کے پودے کی کاشت ہو اکرتی ہے ۔ اور باوجود سائنسی تحقیق وپیداواری ٹکنکس کے زعفران کا پودا آج تک دوسری جگہوں پر اگانے میں ناکامی رہی ہے جس کا انحصار صرف اور صرف قدرت کا ملہ پر ہے کہ وہ جس کو جو چاہتا ہے نوازتا ہے ۔
مشہور ہے کہ شہنشاہ اکبر اعظم کے دربار میں ایک سائل نے اپنی عرضداشت پیش کی اور خواہش و آرزو کا طلبگا رہے اگر جہاں پناہ کی عنایت ہوجائے تو فقیر دعا گو ہوگا ۔ اکبر اعظم سائل کی التجا سمجھ کر فوری حکم صادر کردیا کہ سائل جہاں بھی وہ چاہے پانچ بیگھ زمین حوالہ کردی جائے ۔۔ دریں اثناء دربار میں راجہ ٹوڈرمل بھی حاضر تھے جو شہنشاہ اکبر کے وزیر مال مقرر تھے ۔ راجہ ٹوڈرمل نے فوراً کھڑے ہو کر باادب کہا کہ’’ سوائے کشمیر کی زعفران اگانے والی سرزمین کے ۔!‘‘ بس سائل یہ سنتے ہی آگ بگولہ ہوگیا اور سرپیٹ لیا کہ میں نے تو صرف اور صرف اسی زمین کو اپنے دماغ میں سوچ کر عرضداشت پیش کی تھی ۔
بہر حال کشمیر میں عہد عتیق ہی سے زعفران کی کاشت چلی آرہی ہے تاریخ کے قدیم جھروکوں سے راجہ للت ادتیہ کے زمانے میں اس کا پتہ ملتا ہے کہ سرزمین ہند میں زعفران اگتی تھی لیکن پھر بھی آج تک قطعی طور پر اس کا علم نہ ہوسکا کہ زعفران کا پودا کشمیر سے مغربی ممالک میں پہنچا یا پھر وہاں سے کشمیر کو لایا گیا ۔ لیکن کشمیر کے علاوہ اسپین ایران فرانس سسلی اٹلی وغیرہ ممالک میں بھی زعفران کے پیداوار کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کشمیری زعفران اپنی انفرادی خوشبوو دیگر خوبیوں کے باعث دوسرے تمام ممالک میں اعلیٰ وارفع نادر وشاہکار سمجھا جاتا ہے ۔
جب ہم تاریخ اور اق الٹتے ہیں تو شہنشاہ جہانگیر جیسے قدرتی مناظر سے بے پناہ عشق ومحبت تھی وہیں پر انہیں وادی کشمیر سے بھی والہانہ عشق تھایہی وجہ ہے کہ شہنشاہ جہانگیر کی اپنی تصنیف’’ تزک جہانگیری‘‘ میں زعفران زار کشمیر پر سیر حاصل تبصرہ ملتا ہے ۔ شہنشاہ جہانگیر کی تحریر کے بموجب زعفران کشمیر کے علاقے ’’پامپور‘‘ ہی کا پودا ہے ۔ اور پیداوار عہد جہانگیر کے مطابق قریب قریب چالیس من سالانہ ہو اکرتی تھی اور اُس وقت دو روپے سے لے کر پانچ روپے فی سیر تک فروخت ہوا کرتی تھی ۔ عہد جہانگیر میں جس کسی کی تنخواہ ماہانہ پانچ روپے ہو تو یو ں سمجھ لیجئے کہ اس تنخواہ میں دس تا پندرہ افراد پر مبنی خاندان انتہائی خوشحال زندگی بسر کرتا تھا تو اندازہ لگائیے کہ زعفران کی کیا قدر وقیمت تھی۔ تزک جہانگیری کی روشنی میں زعفران کی کاشت پامپور میں جو سری نگر سے آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے اندازا بارہ ہزار یکڑ زمین پر ہوا کرتی تھی ۔ کشٹواڑ ضلع ڈوڈہ کے کچھ دیہاتوں میں بھی زعفران کی کاشت ہوا کرتی تھی لیکن اس کے باوجود پامپور کی زعفران کشٹواڑ کے نسبتاً اعلیٰ وارفع نادر شاہکار سمجھی جاتی ہے ۔
سرزمین کشمیر میں زعفران ایک فصل کی طرح کاشت کی جاتی ہے ۔ اس کی کھیتی باڑی ایک نہایت ہی مشکل مسئلہ اور بے پناہ اخراجات شاہ خرچی پر منحصر رہتی ہے ۔ زعفران کی کاشت کے لئے خشک وسرد آب وہوا کی ضرورت رہتی ہے ۔ چنانچہ2140 میٹر کی بلندی پر زعفران زیادہ پھلتی پھولتی ہے ۔ پھول آنے سے پہلے زعفران کے پودوں کو جلد اگانے کے لئے ایک سو سے لے کر دیڑھ سوسنٹی میٹر بارش کا ہونا بھی ضروری رہتا ہے ۔ لیکن پھول آجانے کے بعد بارش ہوتو زعفران کی فصل کو نقصان پہنچتا ہے ۔ کشمیری لوگ زعفران کے کھیتوں کو چھوٹی چھوٹی کیاریوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ اور ہر ایک کیاری دوسری کیاری سے قدرے اونچی ہوا کرتی ہے ۔ اس طرح رکھتے ہیں کہ زعفران کا کھیت سیڑھی نما نظر آتا ہے ۔ ان کیاریوں کے اردگرد ایک خندق کھودی جاتی ہے تاکہ بارش کے زائد پانی کا نکاس بآسانی ہوسکے اور یہ زائد پانی دوسری کیاریوں میں جاکر نقصان نہ پہنچا سکے ۔ ماہ اپریل میں زعفران کے پودے کے بیچ جو لہسن کے برابر ہوتے ہیں زمین میں دبادیتے ہیں اور پانی دیا جاتا ہے ۔ بیج کئی مہینوں تک زمین ہی میں پڑے رہتے ہیں اور جب ماہ اکتوبر شروع ہوتا ہے تو بڑے بڑے پتوں والا پودا نکلتا ہے یہی درحقیقت زعفران کا پودا ہے ۔ کچھ روز کے بعد اس پودے سے ایک ڈنڈی سی نمودار ہوتی ہے جس کی لمبائی قریب قریب ایک چوتھائی میٹر کے برابر ہوتی ہے ۔ اور ہر ڈنڈی پر روز سرشام ایک ایک پھول نکل آتا ہے جس کا توڑنا ضروری رہتا ہے اس لئے کہ روزانہ لگاتارپھول توڑانہ جائے توشہد کی مکھیاں اس پھول کی بہت دلدادہ رہتی ہیں اور ذراسی غفلت پر پھول شہد کی مکھیوں کی نذر بن جاتا ہے ‘ ہر پودے میں روزانہ صرف ایک ایک پھول ہی نکلتا رہتا ہے ۔ اور موسم تمام تر پودے پر صرف نو تا دس ہی پھول نکلا کرتے ہیں۔
زعفران کا پھول کاسنی رنگ کا ہوتا ہے ۔ جس کے اندرونی حصہ میں چھ ریشے پائے جاتے ہیں ان میں تین ریشے لال یا سرخ رنگ کے اور تین ریشے زرد یا پیلے رنگ کے رہتے ہیں اصلی زعفران صرف لال سرخ رنگ کے ریشے کوکہتے ہیں جبکہ زرد یا پیلے رنگ کے ریشوں کو کم قیمت سمجھا جاتا ہے ۔ جب تمام پھول جمع کرلئے جاتے ہیں تو احتیاط کے ساتھ ان پھولوں سے دونوں طرح کے ریشوں کو الگ الگ کرلیتے ہیں ۔ یہ تمام عمل زیادہ کشمیری خواتین کرتی ہیں۔ پھر ان تمام کو سکھایا جاتا ہے ۔ سکھانے کے عمل کے وقت بھی شہد کی مکھیاں ریشوں کو چاٹنے کی فکر میں رہتی ہیں لہٰذا سکھاتے وقت بھی شہد کی مکھیوں سے حفاظت کرنا ان کے لئے درد سرسے کم نہیں ۔ اس طرح سے زعفران کے پھولوں کو جمع کرنا ‘ ان پھولوں سے دورنگی ریشوں کو علحدہ کرنا اور پھر انہیں سکھانے کا عمل نہایت تکلیف دہ محنت وعرق ریزی سے کرنا پڑتا ہے بلکہ سچ پوچھئے تو صبر وضبط و آزمائش کا امتحان رہتا ہے ۔ جسے پیچاری خواتین ہی برداشت کرسکتی ہیں۔ تاریخی اوراق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سلاطین کشمیر کے عہد میں یہ کام ’’ بیگار‘‘ سے کروایا جاتاتھا اور مزدوری صرف تھوڑے سے نمک کی صورت میں ملا کرتی تھی ۔ جب کشمیر شاہان مغلیہ کے اقتدار میں آیا تو مغلیہ حکمرانوں نے ’’ بیگار‘‘ کا طریقہ بند کردیا اور گتہ پر کام د یا جانے لگا ۔
ہاں ! آٹھ ہزار پھولوں سے اوسطاً500گرام زعفران حاصل ہوتی ہے اور سوکھ جانے کے بعد یہ صرف ایک سوگرام تک ہی باقی رہ جاتی ہے ۔ ماہ اکتوبر کے وسط میں زعفران کے کھیتوں میں جب پھول آنا شروع ہوتے ہیں تو سارے علاقے کی فضاء مہک اٹھتی ہے ۔ اور زعفران زار کا دلفریب منظر قابل دید ہوتا ہے ۔ چاندنی راتوں میں عموماً زعفران کے کھیتوں کے اطراف دلکش دلفریب نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لئے جب مطلع صاف ہو مرد اور دوشیزائیں جوق درجوق آتے ہیں اور قدرت کے کرشمہ سے بے پناہ متاثر ہو کر اپنی اپنی لوک گیتوں پر رقص کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ان کے گیتوں میں زعفران کی دلکشی اور قدرت کی کرشمہ سازی پر شکرانہ رہتا ہے ۔ زعفران کے پھول کشمیری لوک گیتوں میں اور لوک کہانیوں میں بھی ایسے رچ بس گئے ہیں کہ کہیں اسے ’’ محبوب ‘‘ اور کہیں اسے رقیب سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ اور ان گنت گیت وکہانیاں اسکے گرد گھومتی ہیں۔
محبوب کی یاد میں کشمیری دوشیزائیں اپنے جذبات کی ترجمانی کچھ اس طرح کرتی رہتی ہیں ؂
میرا محبوب پامپور کی طرف چلا گیا ہے
زعفران کے پھولوں نے اسے اپنا گرویدہ بنالیا ہے
آہ ! وہ وہاں اور میں یہاں۔۔
یاا للہ ! کب اور کیسے اس کا مکھڑا دیکھوں گی
زعفران کے بارے میں یہ عقیدہ بھی ہے کہ زعفران ہر بیماری کا علاج ہے ‘ اسلئے کہ مشہور ہے کہ جہاں زعفران کی کاشت ہوتی ہے وہاں کوئی بیماری پیدا نہیں ہوتی ۔ یہ کہاں تک درست ہے کہا نہیں جاسکتا ۔ ایسے مقام اور زعفران کو بیماریوں سے محفوظ رکھنا قدرت کا ہی کرشمہ ہے ۔ سنا ہے کہ پامپور کے علاقہ میں آج تک کسی قسم کے وبائی امراض نہیں ہوئے ۔
ہر دور حکومت نے کشمیر میں زعفران کی کاشت کو بڑھا وا دینے اور اس کے فروغ و ترقی پر ممکنہ اعانت کرنے تیار رہتی ہے ۔ اس طرح سے کہ ایک طرف زعفران کو دوسرے مقامات ونئی جگہوں پر اگا کر پیدا وار کو بڑھانے میں مدددیتی ہے تو دوسرے طرف کاشت کا روں کو ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچا ناحکومتوں کا ہمیشہ مطمع نظر رہا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود پامپور اور کشٹواڑ کے علاوہ ان کی کوششیں ناکام ثابت ہوتی رہی ہیں۔ ممکن ہے قدرت کو یہ منظور نہ ہو پھر بھی انسان اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور کامیابی دینا اللہ کا کام ہے ۔
زعفران کا استعمال قیمتی ادویات کے علاوہ کھانے کی مختلف اشیاء میں استعمال ہوتا ہے ۔ خصوصاً بریانی اور ڈبل کے میٹھے وسیویوں کے میٹھے میں استعمال کے بعد جولذت حاصل ہوتی ہے اس سے قارئین خوب واقف ہیں۔ یونانی اور آیورویدک طریقہ علاج میں زعفران کا استعمال بکثرت رہتا ہے ۔ عید یں‘ تہواروتقاریب کے موقعوں پر عموماً اور ہندو لوگ خصوصاً ماتھوں پر زعفران کا تلک لگاتے ہیں جسے متبرک سمجھا جاتا ہے ۔ زعفران دیوی دیوتاؤں کو بھی نذر کی جاتی ہے ۔ عہد عتیق میں یونان کے شاہی محلات میں بلکہ آصفی حکمرانوں کے دورحکومت میں بھی شاہی محلات میں زعفران کی بڑی قدر وقیمت تھی ۔ مشہور ہے کہ شاہان سلطنت کے استعمال کے لئے کھیتوں اور دوسرے مقامات پر زعفران کے پانی کا چھڑکاؤ ہوا کرتا تھا ۔ بقول حکیم سید صفی الدین علی صاحب زعفران جالی ‘ محلل‘ دافع تعفن ‘ مقوی قلب‘ افعال رکھتی ہے ۔ اس لئے صنعف بصری آنکھوں کی کمزوری نظر اور مختلف اقسام کے موجود ورم کو تحلیل کرنے کے لئے اور خصوصاً ناک کی عنشاء مخاطی کے ورم کے لئے جس کے باعث نزلہ بار بار ہوتا رہتا ہے زعفران اکسیر نافع ہے ۔ امراض قلب میں بھی زعفران نافع ہے ۔ آنکھوں میں لگانے کے لئے زعفران کو باریک پیس کر پانی میں ملاکر آنکھوں میں لگانے سے صنعف بصارت کے لئے بیحد مفید ہے ۔ اس طرح زعفران کو پیس کر پانی ملا کر ناک کے بیرونی واندرونی حصوں میں لگانے سے عنشائم مخاطی کا ورم زائل ہوکر نزلہ کے عوارضات کو نفع بخشتا ہے ۔ یہ ترکیب چھوٹے بچوں کے لئے بیحد نافع ہے ۔ عرق گلاب میں زعفران کو محلول کرکے استعمال کرنے سے قلب کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔بلکہ عورت کو استقرار حمل کے لئے بھی بیحد اکسیر ہے ۔ گردہ میں پتھری ہوتو شہدمیں زعفران ملاکر نہارپیٹ چاٹنے سے پتھری ریزہ ریزہ ہوکر پیشاب کے ذریعہ نکل جاتی ہے ۔
 
Top