انیس زرد چہرہ ہے نحیف و زار ہوں - میر انیس

حسان خان

لائبریرین
زرد چہرہ ہے نحیف و زار ہوں
ماتمِ سجاد میں بیمار ہوں
مثلِ بوئے گل سفر ہو گا مرا
وہ نہیں میں جو کسی پر بار ہوں
بلبلیں دم بھر جدا ہوتی نہیں
کس گلِ تر کے گلے کا ہار ہوں
عالمِ پیری میں آئے کون پاس
اے عصا گرتی ہوئی دیوار ہوں
ہر کس و ناکس سے جھکنے کا نہیں
ہمدمو میں تیغِ جوہر دار ہوں
اے زمیں مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ
آسماں کا طرّۂ دستار ہوں
شہ کو عرضی میں یہ صغرا نے لکھا
رحم کیجیے طالبِ دیدار ہوں
شام سے گنتی ہوں تارے تا سحر
صورتِ مہتاب شب بیدار ہوں
کہتے تھے عباس اے فوجِ یزید
میں غلامِ سیدِ ابرار ہوں
میرا آقا ہے حسین ابنِ علی
ابنِ زہرا کا علم بردار ہوں
کہتے تھے عابد قدم کیوں کر اٹھیں
اے ستمگارو نحیف و زار ہوں
دم بدم کھینچو نہ میرے ہاتھ کو
پاؤں پڑ سکتے نہیں ناچار ہوں
سوکھ کر کانٹا ہوا ہوں پر انیس
آنکھ میں دشمن کی اب تک خار ہوں
(میر انیس)
 
Top