فراز زخم کو پھول تو صَرصَر کو صبا کہتے ہیں : احمد فراز

مانی عباسی

محفلین
زخم کو پھول تو صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
جانے کیا دور ہے ، کیا لوگ ہیں، کیا کہتے ہیں​
کیا قیامت ہے کہ جن کے لئے رک رک کے چلے
اب وہی لوگ ہمیں آبلہ پا کہتے ہیں​
کوئی بتلاؤ کہ اک عمر کا بِچھڑا محبوب
اتفاقا کہیں‌ملا جائے تو کیا کہتے ہیں​
یہ بھی اندازِ سخن ہے کہ جفا کو تیری
غمزہ و عشوہ و انداز و ادا کہتے ہیں​
جب تلک دور ہے تو تیری پرستش کر لیں
ہم جسے چھو نہ سکیں اس کو خدا کہتے ہیں​
کیا تعجب ہے کہ ہم اہل تمنا کو فراز
وہ جو محرومِ تمنا ہیں‌برا کہتے ہیں​
 
Top