روسیوں کیلئے قہر .."نینہ خاتون"

ربیع م

محفلین
روسیوں کیلئے قہر .."نینہ خاتون"




ہماری یہ شخصیت کہانیوں یا تصوراتی واقعات کی ہیرو نہیں.. بلکہ حقیقی مسلم عورت ہیں جس کا تعلق سرزمین "سلطنت عثمانیہ" سے تھا۔

وہ عورت جس سے ہم تو شاید ناواقف ہیں، لیکن روسی اسے آج تک اچھی طرح جانتے ہیں ۔

جو مملکت عثمانیۃ کے علاقہ ارضروم کے ایک محلہ میں رہتی تھی یہ علاقہ العزيزية کے نام سے معروف تھا ، یہ محلہ ایک اہم قلعہ کے قریب واقع تھا جو شہر کا روسی افواج کی شورش کے خلاف مقابلہ کر رہا تھا۔

7نومبر 1877 کو روسی فوج نےالعزيزيةقلعہ پر اس کی حفاظت کیلئے متعین فوج کو قتل کرنے کے بعد قبضہ کر لیا ، جو اس جان میں تن من کی بازی لگا چکی تھی ۔نینہ خاتون کا ایک بھائی جس کانام "حسن" تھا اس شام شدید زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گیا۔

اور صبح جب اس تک قلعہ پر روسیوں کے قبضہ کی خبر پہنچی تو اس نے اپنے فوت شدہ بھائی کے چہرے کا بوسہ لیا اور قسم کھائی کہ اس کی موت کا انتقام لے گی یا پھر جنتوں میں اس سےجاملے گی۔

نینہ خاتون نے پیچھے گھر میں اپنی 3سالہ بیٹی اس حال میں چھوڑی کہ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اپنی بیٹی کے آنسوؤں کے ساتھ مل رہے تھے اور اہلیان شہر سے جا ملی جنہوں نے اپنے دین اور سرزمین کے تحفظ اور مجاہدین کے خون کا انتقام لینے کیلئے زندگی کی آخری رمق تک جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس کے پاس اس کے فوت شدہ بھائی کی بندوق اور اس کے ساتھ ایک چھوٹی کلہاڑی تھی۔

باوجودیکہ یہ حملے عثمانی عام شہریوں کی جانب سے ہو رہے تھے جن میں اکثریت عورتوں اور بوڑھوں کی تھی اور جو کلہاڑیوں اور زرعی آلات سے مسلح تھے مگر روسی فوج کی آنکھوں میں وہ دنیا کی طاقت ور ترین فوج تھے۔

شہریوں نے اپنے سادہ اسلحہ کے ساتھ روسیوں کے جدید ہتھیاروں کا مقابلہ کرنا شروع کیا اور ان حملہ آوروں میں سب سے آگے نینی خاتون تھی ، جو شدت جذبات میں دوڑتے ہوئے حملہ کے دوران تمام شہریوں سے آگے بڑھ گئی ، ان کی نظروں میں اس کے پاس محض بندوق اور کلہاڑی تھی ، لیکن وہ جانتی تھی کہ اس ظلم اور قابضین کے خلاف جنگ میں اللہ رب العزت ان کے ساتھ ہے۔

روسی فوجیوں کے دل لرز رہے تھے کیونکہ ان کا مقابلہ کسی آرمی یا بھاری ہتھیاروں کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ان کا مقابلہ پہاڑ جیسے بلند اور فولاد جیسے مضبوط دلوں کے ساتھ تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور سینکڑوں عثمانی شہری روسیوں کی گولیوں سے ہلاک ہوئے لیکن ان نہتے شریوں کی مزاحمت جاری رہی وہ قلعہ کے فولادی دروازے توڑ کر اس میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ،یہ جنگ جو محض ہاتھوں، کلہاڑیوں اور چھریوں سے چل رہی تھی اس کے نتیجےمیں 2000 کے لگ بھگ روسی فوجی ہلاک ہوئے ، اورباقی روسی فوجی بھاگ جانے میں کامیاب ہوئے ۔

جنگ کے بعد جب نینی خاتون کو پایا گیا تو زخمی اور بیہوش تھی ، اس کے دونوں ہاتھ خون میں رنگین تھے لیکن اس کے باوجود اس نے اس غلیل کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا ، اور نینہ خاتون تمام مزاحمت کروں کے اعتراف کے مطابق ان سب سے زیادہ دلیر تھی۔ اس طرح وہ شجاعت و دلیری کی علامت بن گئی صرف سرزمین مملکت عثمانیہ میں ہی نہیں ، بلکہ تمام روس اور دنیا بھر میں۔

1952 میں امریکی جنرل Matthew Ridgway نے ترکی کا دورہ کیا تو نینہ خاتون سے ملنے کی خواہش پر اصرار کیا اور اس نے جب نینہ خاتون سے سوال کیا کہ کیا کسی نئی جنگ چھڑنے کی صورت میں وہ اس میں شرکت کیلئے تیار ہے تو اس نے جوب میں کہا ہاں بالکل میں اس میں شریک ہونے کیلئے تیار ہوں

نینہ خاتون "ام الجیش الثالث" "Mother of the Third Army"کے نام سے مشہور ہوئی اور" ام الامہات" "Mother of the Mothers"کا لقب پایا، 1955 میں نینہ خاتون کا انتقال ہوا۔

مزید تفصیل کیلئے : دیکھئے
 
Top