سید شہزاد ناصر
محفلین
رسم ظالمی کی، دستور ہے کہاں کا
دل چھین کر ہمارا دشمن ہوا ہے جاں کا
ہر یک نگہ میں ہم سے کرنے لگے ہو نوکیں
کچھ یوں تری آنکھوں نے پکڑا ہے طور بانکا
تجھ راہ میں ہوا ہے اب تو رقیب کتا
بُو پائے کر ہمارے آ باندھتا ہے ناں کا
خندوں کے طور گویا دیوارِ قہقہا ہے
پھر کر پھرے نہ لڑکا جو اس طرف کو جھانکا
رستم دَہَل کے دل میں ڈالے انجھو سو پانی
دیکھے اگر بھواں کی تلوار کا جھماکا
فاسق کے دل پہ ڈالی جب نفسِ بد نے بَرکی
رجواڑے کی گلی کا تب جا غبار پھانکا
سب عاشقوں میں ہم کوں مژدہ ہے آبرو کا
ہے قصد گر تمہارے دل بیچ امتحاں کا
دل چھین کر ہمارا دشمن ہوا ہے جاں کا
ہر یک نگہ میں ہم سے کرنے لگے ہو نوکیں
کچھ یوں تری آنکھوں نے پکڑا ہے طور بانکا
تجھ راہ میں ہوا ہے اب تو رقیب کتا
بُو پائے کر ہمارے آ باندھتا ہے ناں کا
خندوں کے طور گویا دیوارِ قہقہا ہے
پھر کر پھرے نہ لڑکا جو اس طرف کو جھانکا
رستم دَہَل کے دل میں ڈالے انجھو سو پانی
دیکھے اگر بھواں کی تلوار کا جھماکا
فاسق کے دل پہ ڈالی جب نفسِ بد نے بَرکی
رجواڑے کی گلی کا تب جا غبار پھانکا
سب عاشقوں میں ہم کوں مژدہ ہے آبرو کا
ہے قصد گر تمہارے دل بیچ امتحاں کا