راز جب سے بے خودی کا آشکارا ہو گیا

عظیم

محفلین
راز جب سے بے خودی کا آشکارا ہو گیا
جاں گئی صدقے تمہارے دل تمہارا ہو گیا

کیا کہیں کیسے کٹے ہجراں میں اپنے رات دن
زخم کها کر اشک پی کر ہی گزارا ہو گیا

زندگی میں بس ہماری چند ٹوٹے خواب تهے
جن سے اپنے بخت کا روشن ستارا ہو گیا

اور کچھ وعدے تهے پنہاں اِس ہماری ذات میں
جو وفا ہو کر رہے خود سے کنارا ہو گیا

یوں ہوئے ہم آج اپنے آئینوں سے اجنبی
جس طرح وہ اجنبی ہم سے ہمارا ہو گیا

قیس اپنی آرزو ہے اُس ریاضت میں رہیں
دل جلا جس میں ہمارا اور شرارا ہو گیا

 
آخری تدوین:
Top