ایاز صدیقی رات اک اُمی لقب کا فیض بے اندازہ تھا

مہ جبین

محفلین
میرے ہاتھوں میں بیاضِ نعت کا شیرازہ تھا
رات اک اُمی لقب کا فیض بے اندازہ تھا
صف بہ صف استادہ تھے سارے فضائل سب علوم​
مجھ پہ شہرِ علم کا وا ایک اک دروازہ تھا​
بخششیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں ہوتی گئیں​
میرے دامن کا اُنہیں پہلے ہی سے اندازہ تھا​
آپ دل میں آئے جنت کے دریچے کھل گئے​
آپ سے پہلے یہ گھر زندانِ بے دروازہ تھا​
میرے دل پر آپ نے جب دستِ رحمت رکھ دیا​
میرے حق میں حرفِ شیریں وقت کا دروازہ تھا​
آپ کی مدحت سے پہلے ننگ تھا ذوقِ سخن​
فکر آوارہ تھی ، برہم ذہن کا شیرازہ تھا​
تھا تصور میں شبِ غم گنبدِ خضرا ایاز !​
دل کا ایک اک زخمِ نادیدہ گلابِ تازہ تھا​
ایاز صدیقی​
 
Top