دیکھتا کیوں رہوں زمانے کو ۔

عظیم

محفلین


دیکھتا کیوں رہوں زمانے کو
کب ہوں محتاج آگے جانے کو

ہاں مجھے علم ہے تعلق ہیں
آج کل پیٹھ کے کھجانے کو

غیر کیا میرے خاص اپنے ہیں
مجھ کو خونِ جگر رلانے کو

کیوں نہ دکھ ہو جو قہقہے دیکھوں
میں ترستا ہوں مسکرانے کو

یہ نہ سمجھو کہ داد چاہتا ہوں
لکھ رہا ہوں قدم جمانے کو

اس رضا کا اگر نہ ہو احساس
منہ لگاؤں نہ اس گھرانے کو

آسرا دینے کو ہیں چند عظیم
ایک جتھا مگر گرانے کو

*****

 
Top